کورونا کے خلاف حکومت اب تک جو احتیاطی تدابیر اختیار کرتی رہی ہے وہ ساری کی ساری ملک کو تباہی و بربادی کی جانب دھکیلے لیے جا رہی ہیں اور ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ملک غربت، افلاس، بے روزگاری اور بھوک کی ایسی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے جہاں سے باہر آنا شاید ممکن ہی نہیں رہے۔ مجھے تو اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ اگر پاکستان اپنے وسائل اور قوتِ فیصلہ کو کام میں نہ لانے کی وجہ سے حالات پر قابو پانے میں ناکام ہوگیا تو پھر دنیا کے دیگر ممالک عالمی ایمرجنسی کو بنیاد بنا کر اس پر اپنی گرفت مضبوط کر لیں گے اور یوں پاکستان کی رہی سہی آزادی و خود مختاری بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔
گزشتہ برسوں میں کئی ممالک بشمول سعودی عرب، اسی قسم کے حالات کا شکار ہوئے تو دنیا نے ان کی امداد اور بگڑتے ہوئے حالات کو قابو میں لانے کے لیے اپنے اپنے ممالک کی افواج ان ممالک میں بھیجیں تاکہ وہاں مشکلات میں گھرے ہوئے عوام کو مصائب سے نکالا جا سکے۔ پاکستان کی افواج بھی متعدد بار اقوامِ عالم کی ان ہی افواج کے ساتھ مصیبت میں گھرے عوام کی مدد کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے جاتی رہی ہیں۔ ہزار بار خدا نخواستہ، اگر پاکستان اپنے وسائل سے موجودہ بحران پر قابو پانے میں ناکام ہوا تو پھر اقوام عالم کی مدد اور مداخلت کا راستہ کھل سکتا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کورونا کے خلاف احتیاط کے حوالے سے کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائے جو پاکستان کو تباہی و بربادی کے بھنور میں اس بری طرح پھنسا دے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اپنے گلی کوچے، بازار، اور شہر کے شہر بند کر دیے ہیں اور عوام کو ان کے گھروں کے اندر محدود کر کے رکھ دیا ہے لیکن یہ وہ ممالک ہیں جو پاکستان سے ہزار گنا زیادہ وسائل رکھتے ہیں اور مہینوں اپنے ملک کے عوام کو ان کے گھروں میں بٹھا کر ان کو زندہ رکھنے کی سارے اسباب مہیا کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کے وسائل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہاں کروڑوں افرا ایسے ہیں جو صبح سے شام تک محنت کرنے کے باوجود بھی بصد مشکل اپنا اور اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے کے اسباب مہیا کر پاتے ہیں۔ احتیاط بہت اچھا قدم سہی لیکن دنیا کی نقالی میں جس طرح کے اقدامات صوبائی یا وفاق کی سطح پر اب تک اٹھائے گئے ہیں یا مزید اٹھائے جانے کا امکان ہے، اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کے کروڑوں افراد کے پاس دو ہی راستے بچیں گے۔ ایک یہ کہ وہ صومالی باشندوں کی طرح بھوک برداشت کرتے کرتے مرجائیں اور دوسرا راستہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے سے زیادہ خوشحال افراد کی بوٹیاں نوچ کر اپنا پیٹ بھریں، چوری چکاری کریں، ڈاکے ڈالیں، بازاروں کی دکانوں کے تالے توڑ کر کھانے پینے کی اشیا لوٹ کر لے جائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے بڑے بڑے بازار بند کردینے کے اقدامات کے باوجود دودھ، دہی، انڈے، دال چاول اور آٹے کی دکانیں کھلی رکھنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے لیکن اہم سوال تو یہ ہے کہ جب روز کی دہاڑی پر کام کرنے والوں کے پاس کسی بھی شے کی خریدنے کی صلاحیت ہی نہیں رہے گی تو وہ اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک کو کتنے دن برداشت کر سکے گا۔ بالآخر وہ حالات سے مجبور ہو کر یا تو وہ ذہنی طور پر مرنے کے لیے تیار ہوجائے گا یا پھر چوری چکاری کی راہ اختیار کر لے گا۔ ہر دو صورت میں ملک کے امن و امان کی صورت ممکن ہے کہ اتنی بے قابو ہو جائے کہ پاکستان از خود اس پر قابو پانے میں ناکام ہو جائے۔ اگر کوئی وزیر اعظم پاکستان کی تقریر پر غور کرے تو اس میں بھی اسی قسم کے اشارے ملتے ہیں۔ ان کا یہ فرمانا کہ پاکستان تنہا اس قابل نہیں کہ ایسے حالات پر از خود قابو پا سکے، اسی جانب اشارہ ہے کہ ہم دنیا کی بھر پور امداد کے بغیر شاید کچھ بھی نہ کر سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف نے کورونا کے پیشِ نظر اپنی کچھ شرائط آسان کر دی ہیں اور ایک مصدقہ خبر کے مطابق عالمی اور ایشیائی بینک نے پاکستان کو تقریباً 54 کروڑ ڈالرز امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ شرحِ مبادلہ کے حساب سے یہ رقم پاکستانی روپوں میں تقریباً 85 ارب 86 کروڑ بنتی ہے۔ کورونا کے خلاف جس سختی کے ساتھ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو صرف کراچی میں تاجروں کو پہنچنے والا نقصان 5 ارب روپے یومیہ سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اس میں وہ نقصان شامل نہیں ہے جو دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے طبقے سے ہے۔ اسی طرح اگر پورے ملک کے تمام شہروں کو سامنے رکھا جائے اور وہاں آہستہ آہستہ اسی قسم کے اقدامات اٹھائے جانے لگیں اور جیسا کہ دیکھنے میں آ رہا ہے ملک کے سارے بڑے بڑے شہر لاک ڈاؤن کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں، فضائی آپریشن محدود ہونا شروع ہو گئے ہیں، شہروں اور شہروں کے درمیان بسوں کی سروسز بند کی جارہی ہیں، تو ان سب کا یومیہ خمیازہ شاید عالمی اور ایشیائی بینک کی کل امداد کا سے بھی زیادہ بن جائے گا گویا دی جانے والی امداد، وہ بھی بطور قرض، ایسی ہے جیسے کسی اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ پھر یہی نہیں کہ پاکستان اگر اپنے آپ کو لاک ڈاؤن کر لیتا ہے تو ایسا فقط ایک ہی دن کے لیے کیا جائے گا، فی الحال تو پندرہ دن کے لیے ایسا قدم اٹھانے کے لیے کہا گیا ہے لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ یہ پندہ دن کراچی میں رینجرز کو دیے جانے والے 90 دنوں، کراچی اسکولوں کو دیے جانے والے 13 دنوں اور نیب کو ریمانڈ کے لیے دیے جانے والے 14 دنوں کی طرح کتنے ماہ و سال پر مشتمل ہو جائیں۔ جو ملک اپنی معمول کی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے لیے دنیا سے قرض لینے پر مجبور ہو، کیا وہ اس پوزیشن میں ہے کہ کئی ماہ سال تک کھربوں روپے کا یومیہ خسارہ اٹھانے کے باوجود بھی اپنا وجود بر قرار رکھ سکے؟۔ یہ ہے وہ سوال جس پر تمام ارباب اختیار و اقتدار کو نہایت سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
کہتے ہیں ملک کے سارے شادی حال بند کر دو، گویا لاکھوں ملازمین کو بے روزگار کر دو۔ انٹر سٹی بس سروسز روک دو، ہزاروں کنڈکٹرز، ڈرائیورز، مکینکوں، ہلپروں کے گھروں کے چولہے سرد کردو۔ شہروں ہی کے نہیں، تمام شاہراہوں کے ہوٹل سر بمہر کردو گویا لاکھوں افراد، ان سے وابستہ کروڑوں بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کے پیٹوں پر لات مار دو۔ مارکٹیں، دکانیں اور بازار بند کر دو کا کیا یہ مطلب نہیں کہ کئی کروڑ سیلز مینوں، بازار میں کھڑے چھوٹی چھوٹی اشیا لیے ایک ایک کی خوشامد کر کے بیچنے والے، گاڑیاں صاف کر کے اپنے لیے روزگار کے اسباب جمع کرنے والے، رکشا ٹیکسی والے اور نہ جانے کتنے چھوٹے چھوٹے کام کرنے والوں کے بیوی بچوں کا گلا گھونٹ دو۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس قسم کی وبا پوری دنیا میں عذابِ الٰہی بن کر ٹوٹ پڑی ہے شاید وہ اسی قسم کے اقدامات کی متقاضی ہے لیکن کیا شہروں کو لاک ڈاؤن کے احکامات جاری کرنے والے حکامِ بالا اس بات کی استطاعت رکھتے ہیں کہ تمام پاکستانیوں کو قید کرکے رکھنے والے 22 کروڑ عوام کو روزی روٹی فراہم کر سکیں گے۔ ملک کے حالات بے قابو ہو جانے پر خود تو اپنا مال و اسباب سمیٹ کر فرار ہو جائیں گے اور پورے ملک کو غیروں کے ہاتھوں میں تھمادیں گے۔
آزاد پنچھیوں کو پنجروں میں بند کرنے والے بھی کبھی اتنے ظالم نہیں ہوتے کہ ان کو دانہ پانی فراہم نہ کریں لیکن کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے وہ تمام افراد جو دہاڑی نہ ملنے کی وجہ سے غیروں کے دروازے بجا بجا کر اپنے پیٹ کی دوزخ بھرنے کی التجائیں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، ان کے گھروں میں حکومتِ وقت نے دال دلیا پہنچانے اور ان کے بچوں کو دوا اور خوراک پہنچانے کا کوئی بند و بست کیا۔ پاکستان کے تمام شہروں سے ایسی فہرستیں طلب کیں جو چند دنوں کے لاک ڈاؤن، شادی ہالوں کی بندش، اسکولوں کے سر بمر ہونے کی وجہ سے سخت کرب کے عالم میں اپنے روز و شب بسر کر رہے ہیں۔ جو حکومت ابھی ابتدائی مرحلے ہی میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہے اور اسے کسی مجبور کی آہ و بکا سنائی ہی نہیں دے رہی وہ بہت بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی پر کیونکر قابو پا سکے گی۔ ان سب حالات کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ حکومت دنیا کی نقالی کرنے سے باز رہے تو اچھا ہی ہے۔ احتیاتی تدابیر ضرور اختیار کرے لیکن جو قدم بھی اٹھائے اپنے وسائل اور مسائل کو سامنے رکھ کر اٹھائے۔ دنیا کی نقالی کہیں ملک کے حالات کو ایسی ڈگر پر نہ لیجائے جہاں حالات پر قابو پانے کے لیے دنیا کی کئی طاقتیں پاکستان میں کود کر ہماری آزادی و خود مختاری کا گلا گھونٹ کر رکھ دیں۔