’’الوداع بابائے کراچی ‘‘

226

حافظ احمد علی
کراچی ملک کا وہ شہر ہے،جسے غریبوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ملک بھر سے لوگ اپنے روزگار کے سلسلے میں یہاں آتے ہیں اور اس شہر کا کمال یہ ہے کہ کسی کو بھی یہاں سے مایوسی نہیں ملتی۔اگر آپ کے اندر صلاحیت ہے تو ترقی کی معراج کو بھی پاسکتے ہیں اور اگر آپ کے پاس کچھ نہیں تو پھر بھی یہ شہر آپ کو بھوکا نہیں مرنے دیتا۔ اس غریب پرور شہر کے ساتھ بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس سے فیض پانے والے تو بہت ہیں لیکن اس کو فیض پہنچانے والوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔مرحوم نعمت اللہ خان کو کراچی کی ان شخصیات میں شامل کیا جاسکتا ہے جنہوں نے بلا رنگ و نسل ہر مذہب اور قوم سے تعلق رکھنے والے افراد کی بے لوث خدمت کی ہے۔بھارت کی مٹی میں آنکھ کھولنے والے خان صاحب قیام پاکستان کی تحریک میں بھی پیش پیش رہے اور ہندوستان کے گلی کوچوں میں ’’بٹ کررہے گا ہندوستان ،بن کر رہے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔قیام پاکستان کے بعد اپنی خوابوں کی سرزمین کی طرف ہجرت کی اور بے سروسامانی کا عالم یہ تھا کہ رات بسر کرنے کے لیے بھی جگہ نہیں تھی لیکن نعمت اللہ خان کا عزم چٹان سے زیادہ مضبوط تھا۔انہوںنے اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بآسانی عبور کیا۔پاکستان آمد کے بعد 10 سال کے اندر جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ رکنیت کا حلف پروفیسر غفور سے مسجد نبوی میں ا ٹھایا۔ 1985ء میں سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے۔ ایک عرصے تک اقتدار کے قریب رہے لیکن کبھی ان پر بددیانتی کا کوئی الزام نہ لگا۔ کراچی جیسے شہر کے میئر بنے، اربوں روپے کے خزانے ہاتھ میں تھے لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی کو کرپشن کا الزام لگانے کی جرات ہوئی ہو۔
میر ی خوش قسمتی یہ ہے کہ مجھے اس’’ خدمت کے استعارہ‘‘ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب نئے بلدیاتی نظام کی داغ بیل ڈالی گئی تو نارتھ کراچی کے علاقے سے میں بھی یونین کونسل کا ناظم منتخب ہوا۔ان انتخابات میں جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے شریعت گروپ کے 6ارکان قاری احمد حسین،حافظ تاج محمد،سبحان خان،خدیجہ بانو اور طاہرہ کوکب سٹی کونسل کے رکن منتخب ہوئے تھے۔جماعت اسلامی نے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سٹی حکومت کی ذمے داریاں سنبھالیں۔نعمت اللہ خان کراچی کے پہلے سٹی ناظم اور مسلم لیگ (ق)کے طارق حسن نائب ناظم منتخب ہوئے۔ہمارے شریعت گروپ نے نعمت اللہ خان کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے غیرمشروط طور پر ان کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور میں آج فخر کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا یہ فیصلہ ہر لحاظ سے درست تھا۔ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے میں اکثر حیران رہ جاتا تھا کہ ایک شخص جس کی عمر بھی ہم سے بہت زیادہ ہے اتنے متحرک انداز میں کس طرح کام کرسکتا ہے۔وہ ناظم تو جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے تھے لیکن وہ پورے ایوان کے لیے سایہ شجر دار بن گئے تھے۔ان کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ شہر کو کس طرح ترقی دی جاسکتی ہے۔کون سا شخص کس کام کے لیے سب سے موزوں ہے۔اب اس فرد کا چاہے ان کی جماعت سے تعلق نہ بھی ہو وہ اس سے کام لے لیتے تھے۔سٹی کونسل کے ایوان نے مجھے ٹرانسپورٹیشن اینڈ پارکنگ اورماس ٹرانزٹ کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا تو میری ذمے داریوں میں اضافہ ہوگیا اور ان ذمے داریوں کے ملنے کے بعد خاں صاحب کی شخصیت کا اصل روپ میرے سامنے آیا۔اگر آج تمام لوگ ان کو ’’بابائے کراچی ‘‘ کہہ رہے ہیں تو مجھے ان دنوں ہی میں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ’’بابا‘‘ کراچی کے لیے کتنا اہم ہے۔ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اپنی شخصیت کی نفی کرتے ہوئے دوسروں کو آگے بڑھنے کا موقع دیتے تھے۔ان کے پرسکون چہرے کی جانب دیکھ کر مجھے ہمیشہ رشک آتاتھا کہ اس شخص کے اندر اتنا سکون کہاں سے آگیا ہے اور پھر مجھے خود ہی اپنے اندر سے آواز آتی تھی کہ جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہے تو اس کا چہرا پرسکون کیوں نہیں ہوگا۔
ماضی میں شہر کی بلدیاتی حکومت کو شہر کی وارث ہونے کی دعویدار جماعت نے اپنے کارکنوں کی بھرتیوں اور لوٹ مار کے لیے وقف کر رکھا تھا۔نعمت اللہ خان نے اپنے پیش رو عبدالستار افغانی کی سنت کو زندہ کیا اور خدمت کا عزم لے کر شہر کی قسمت ہی بدل کر رکھ دی۔ ٹرانسپورٹیشن اینڈ پارکنگ اورماس ٹرانزٹ کمیٹی کا چیئرمین ہونے کی حیثیت سے میں نے جب بھی ان سے کسی جائز کام کے لیے کہا ان کی جانب سے مجھے کبھی انکار سننے کو نہیں ملا۔ان کے تقویٰ اور دیانت داری کی قسم ان کے بدترین مخالف بھی آج اٹھارہے ہیں لیکن مجھے روز اول سے نعمت اللہ خان قرون اولیٰ کی کوئی شخصیت لگتی تھیں۔ان کا دور کراچی کا سب سے مثالی دور کہا جاسکتا ہے۔شہر میں سڑکوں کی تعمیر ہو،صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے ہوں،اسکول و کالجز کا قیام ہو یا پھر کھیلوں کے میدانوں اور پارکوں کو آباد کرنا ہو نعمت اللہ خان ہر کام کے لیے انتہائی مستعد رہتے تھے۔آج جب میں شہر میں ٹوٹی پھوٹی بسیں اور سڑکیں دیکھتا ہوں تو نعمت اللہ خان یاد آجاتے ہیں،جن کے دور میں شہریوں نے پہلی مرتبہ ایئرکنڈیشن بسوں میں سفر کیا۔ٹرانسپورٹیشن کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے اس منصوبے میں میری تجاویز کو بھی شامل کیا گیا تو میں اس طرح کہہ سکتا ہوں کہ شہر کی خدمت میں نعمت اللہ خان کی رہنمائی میں تھوڑا بہت کردار میرا بھی ہے۔
25فروری کو جب ان کے انتقال کی خبر ملی توبے ساختہ میرے ذہن میں آیا کہ آج واقعی کراچی یتیم ہوگیا ہے۔مجھے ان کے ساتھ بتائے ہوئے دن یاد آرہے تھے۔ان کا شفیق لہجہ اور دلنشین انداز میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ نعمت اللہ خان کی وفات میرے لیے ایسے تھی کہ جیسے میرے گھر کا کوئی بزرگ مجھ سے بچھڑ گیا ہے۔نماز جنازہ میں شرکت کے لیے میں اپنے مہربان ساتھیوں امیر جمعیت علماء اسلا م سندھ مولانا پیر عبدالمنان انورنقشبندی، مفتی محمد عابد،مفتی حماد احمد مدنی،دانش قادری اور خلیل احمد قریشی، کے ساتھ اجتماع گاہ کی جانب روانہ ہوا۔وہاں عوام کا جم غفیر دیکھتے ہوئے مجھے انداز ہ ہوا کہ شہر سے محبت کرنے والا ہر شخص ان کو اپنے باپ کی طرح ہی سمجھتا تھا اس لیے آج ’’بابائے کراچی ‘‘ کو رخصت کرنے کے لیے عوام کا ایک جم غفیر امنڈ آیا تھا۔خاں صاحب کوان کے بدترین مخالفین بھی شہر کا خیرخواہ سمجھتے تھے اور ان کی دیانتداری کی قسم کو کھانے کو تیار تھے۔نماز جنازہ میں دیگر سیاسی جماعتوں کے وفود کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین آگیا کہ یہ ’’بابا‘‘ سب کا سانجھا تھا۔نماز جنازہ شروع ہونے والی تھی کہ میرے آنکھوں میں وہ مناظر آگئے جب دفترمیں وقفے کے دوران خاں صاحب مجھے کہتے تھے کہ ’’حافظ صاحب نماز آپ پڑھائیںگے‘‘۔میں اب بابائے کراچی کو کیا بتائوں کہ خاں صاحب آپ کے بعد مجھے یہ کون کہے گا کہ ’’حافظ صاحب نماز آپ پڑھائیںگے‘‘
’’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘