حکومت سندھ باقی مسائل توحل کرے

271

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان میں کورونا سے قبل کبھی کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں اور اس وقت بھی کورونا کے بعد کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور خصوصی طور پر سندھ مسائل کا گڑھ ہے ۔ اس وقت سندھ کی حکومت ہی کورونا کے نام پر سب سے زیادہ متحرک بلکہ ضرورت سے زیادہ متحرک ہے اور اس نے کامیابی سے کورونا کی آڑ میں دیگر مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ کورونا کے نام پر سندھ کی چلت پھرت کے نتیجے میں یہ سارے مسائل کہیں غائب تو نہیں ہوئے البتہ ان کی شدت مزید بڑھ گئی ہے ۔ مثال کے طور پر سیوریج کا پانی شہر کے گلی کوچوں میں پہلے بھی بہہ رہا تھا ، اب پہلے سے زیادہ بہہ رہا ہے کہ اب تو صفائی کے عملے کو کورونا کا بہانہ مل گیا ہے اور وہ کہیں غائب ہے ۔ پینے کے پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی پہلے سے زیادہ سنگین ہوگیا ہے مگر گلی کے آوارہ کتے کورونا کی وجہ سے کہیں غائب نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے زیادہ نظر آرہے ہیں ۔ عدالت کے حکم پر بلدیہ نے سارے اخبارات میں اشتہارات تو ضرور شائع کروائے جس میں آوارہ کتوں کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے ہیلپ لائن کا فون نمبر بھی دیا گیا ہے تاہم یہ اشتہارات محض کاغذی کارروائی ثابت ہوئے اور کتوں کے کاٹنے کی وہی رفتار ہے ۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پولیس کو رشوت کا ایک اور بہانہ پکڑا دیا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر وڈیو کلپ وائرل ہیں کہ کس طرح پولیس شہریوں کو مرغا بنا رہی ہے یا تشدد کا نشانہ بنارہی ہے ۔ سید مراد علی شاہ صاحب آپ یہ سمجھیں کہ کوروناقدرتی آفت تو ضرور ہوسکتی ہے مگر قدرتی امداد نہیں ہے کہ اس کے آنے سے صوبے کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں ۔ یہ سارے مسائل نہ صرف اپنی جگہ پر موجود ہیں بلکہ ان کی شدت میں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ آپ سندھ میں عرصے سے حکمراں پارٹی کے نمائندے بھی ہیں اور دو مرتبہ سے صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی۔ صوبے میں ہر قسم کی انتظامی خرابی کے ذمہ دار بھی آپ ہی ہیں ۔ چائنا کٹنگ آپ کے دور میں ہی شروع ہوئی ۔ پورے شہر میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بھاری رشوتیں لے کر غیر قانونی عمارتیں بنوائیں اور اب یہ عمارتیں یہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی توڑ رہی ہے ۔ اب اگر وزیر بلدیات سے کسی علاقے میں پینے کے پانی کی لائن ڈلوانے کی بات کی جائے تو وہ بتاتے ہیں کہ انہیں ہر ماہ ایک بھاری رقم بلاول ہاؤس پہنچانی ہوتی ہے ، اس لیے یہ بتایا جائے کہ اس منصوبے میںان کا کیا حصہ ہوگا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا وائرس سے قبل سید مراد علی شاہ کو پاکستان کا ناکام ترین وزیر اعلیٰ کہا جاتا تھا اور سندھ کو ملک کا بدترین صوبہ قرار دیا جاتا تھا ۔ اب کورونا کے بعد تصویر بالکل ہی بدل گئی ہے کہ مراد علی شاہ ایک ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے ہیں یعنی ان کے سارے گزشتہ معاملات ختم ہوگئے ہیں ، ان کی ساری ناکامیاں غائب ہوگئی ہیں اور سندھ کے حالات صرف اور صرف کورونا میں کہیں چھپ گئے ہیں ۔ اب سید مراد علی شاہ سب کو صرف کورونا کے نام پر خوفزدہ کرنے کا کام کررہے ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو ، اس کے بدلے انہیں یہ کامیابی ملی ہے کہ اب ان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ سندھ میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتیں ، امن و امان کے مسائل ، صحت و صفائی کی سنگین صورتحال ، پوری صوبائی انتظامی مشینری کی نااہلی اور بڑھتی ہوئی رشوت خوری ، یہ سب پیپلزپارٹی ہی کا سندھ کو تحفہ ہیں اور اسے درست کرنے کی ذمہ داری بھی سید مراد علی شاہ ہی پر عاید ہوتی ہے ۔ کورونا کے سلسلے میں صوبے کے اسپتالوں کی جو صورتحال سامنے آئی ہے ، کم ازکم سیدمراد علی شاہ اسی طرف توجہ دے لیں۔ سندھ حکومت اور بلدیہ کراچی کے زیر انتظام کراچی کے اسپتالوں کی حالت زار ہی سید مراد علی شاہ دیکھ لیں اور انہیں ایک معیاری اسپتال بنانے کی طرف توجہ دے لیں تو یہی کورونا کا ایک مثبت پہلو ہوگا ۔