احمد توصیف قُدس
پیسہ انسان کی ضرورت ہے۔ اِسے کمانے کی فکر کی جانی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لیے کی جانی والی سعی میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ آخر انسان پیسہ کمانے کی فکر کیوں نہ کرے کہ اِسے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان چاہیے۔ یہ انسانی تمدن کی بنیادی ضرورتیں ہیں اور ظاہر ہے ان ضرورتوں کی تکمیل بنا پیسوں کے ممکن نہیں۔ یہ پیسہ دراصل انسان کو جینے کا بہانہ دیتا ہے اور اِسی پیسے کے حصول کے لیے کی جانے والی تگ و دو معاشرے کو ’’حرکت‘‘ میں رکھتی ہے۔ القصہ یہ پیسہ حیاتِ انسانی کا جزوِ لاینفک ہے۔ کوئی پوچھے کہ پیسے کی اہمیت پر یہ تمہید باندھنے کی کیا غرض کہ پیسوں کی اہمیت مسلّم ہے اور ہر کوئی اس سے بخوبی واقف بھی ہے۔ تو وضاحتاً عرض ہے کہ پیسہ کمائے جانے کی فکر تو ٹھیک لیکن آج ’’ہماری بستی‘‘ میں اِس پیسے کو حاصل کرنے کے ایسے ایسے طریقے رائج ہو گئے ہیں کہ حساس طبیعت کے حاملین (معاشرے کا جوہر) کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ پیسہ حاصل کرنے کے اِن انوکھے طریقوں سے ’’ہماری بستی‘‘ کی معاشرتی و معاشی دیواریں متزلزل ہوئی ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ اِن ’’انوکھے طریقوں‘‘ سے ہمارے سادہ لوح لوگ آشنائی نہیں رکھتے۔ بلکہ شعوری و غیر شعوری طور پر وہ اِن جرائم کو انجام دینے کا سبب بنتے ہیں۔ چند مثالوں سے مسئلہ کی حساسیت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
٭… ایک شخص کو مکان کی تعمیر کے لیے بنیادیں ڈالنا ہوں تو مستری اپنے کام کو شروع اِسی صورت میں کرے گا کہ ’’رسمِ بسم اللہ‘‘ کے عوض اُسے کچھ ’’ہدیہ‘‘ عنایت کیا جائے۔
٭… اسپتال میں ایک حاملہ عورت بچے کو جنم دیتی ہے، تو آپریشن تھیٹر میں موجود ڈاکٹر یا دیگر متعلقہ ملازمین تب تک بچے کو والد کی گود میں نہیں دیں گے کہ جب تک اُنہیں بچے کے والد سے ’’مبارکبادی‘‘ کی کچھ رقم حاصل نہ ہو جائے۔
٭… گھر پر خصوصاً شادیوں یا دیگر تقریبات میں دور سے کوئی معزز رشتہ دار آئے تو صدر دروازے پر گھر کی عورتوں کو پانی کے ایک کٹورے کے ساتھ کھڑا کیا جاتا ہے اور اندر داخل ہونے سے قبل مہمانوں سے کچھ رقم طلب کی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں کشمیری زبان میں اِسے ’’آبْ کَڑُؤن‘‘ کہتے ہیں۔
٭… یہی حال ہماری شادیوں کا بھی ہے۔ باراتیوں کو دلہن کے گھر داخل ہونے سے قبل دروازے پر کھڑی خواتین کو کچھ پیسے دینے پڑتے ہیں۔ اِسی طرح دلہن کو اپنے سسرال لاتے وقت ’’رسمِ خوش آمدید‘‘ کے نام پر کسی نہ کسی صورت میں پیسوں کا یہ لین دین اور تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔
٭… ایک اور صورتحال ملاحظہ فرمائیں جس سے غالباً سب کو آئے روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک گاہک 99 روپیوں کا موبائل ریچارج کرانے پر موبائل ری ٹیلر (دُکان دار) کو 100 روپے کا نوٹ تھما دیتا ہے۔ ری ٹیلر چُھٹا نہ ہونے کے سبب ایک روپیہ لوٹانا ضروری نہیں سمجھتا اور گاہک بھی اِسے سنجیدہ نہیں لیتا کہ اُس کے نزدیک ایک روپیہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ عمل دکان پر دن بھر جاری رہتا ہے۔ فرض کیجیے پورے دن اگر 20گاہکوں کے ساتھ ری ٹیلر کا طرزعمل ایسا ہی ہو تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ شام کو بیس روپے کا نوٹ مفت میں اُس کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ اب شہر میں اگر 20 دکانیں ایسی ہوں تو اُس شہر میںفی روز 400 روپے کی دھاندلی ہوگی اور مہینے میں 25 ایام (30 اس لیے نہیں کہ تقریباً 5 روزہفتہ وار چھُٹی میں چلے جاتے ہیں) کے حساب یہ رقم10 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ پورے سال کا حساب دیکھیں تو دھاندلی سے حاصل شدہ یہ رقم 1 لاکھ 20 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ فقط ایک شہر کی مثال ہے، اِس مثال کا اطلاق ریاستی اور ملکی سطح پر ہو تو رقم کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔
یہ مثالیں ایسی ہیں کہ جنہیں بعض لوگ ’’کرپشن، رشوت اور دھاندلی‘‘ سے تعبیر کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔ اُن کے نزدیک ’’کرپشن، رشوت اور دھاندلی‘‘ کی یہ اصطلاحات محض سرکاری دفاتر کے لیے مخصوص ہیں۔ سرکاری دفاتر میں تو ’’دھاندلی اور بدعنوانی‘‘ کے کئی اسباق ہمیں ازبر ہیں۔ لیکن جس اہم مسئلہ کو ہم سمجھنے میں ایک مجرمانہ غفلت برتتے ہیں ، وہ دراصل یہی ’’معاشرتی و معاشی آلودگی‘‘ ہے۔ اوپر ذکر شدہ ان مثالوں کے علاوہ بھی بے شمار ’’غیر ضروری‘‘ رسمیں آج ’’ہماری بستی‘‘ میں رَچ بس گئی ہیں جو رفتہ رفتہ معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں۔ قصۂ مختصر یہ کہ آج معاشرے میںغلط اور ناجائز طریقوں سے پیسے بٹورنے کا عمل دھڑلے سے جاری و ساری ہے۔
کوئی سوال پوچھے کی آخر ان رسموں میں قباحت ہی کیا ہے کہ یہ انجام کار کے ذریعہ بحالتِ خوشی انجام دی جاتی ہیں۔ تو جواباً عرض ہے کہ اولاً تو یہ ’’رسمیں‘‘ فی الحقیقت خوشی سے انجام دی نہیں جاتیں۔ ناجائز طریقوں سے پیسے دینے والا اندر سے پیسے دیتے وقت کڑھتا ضرور ہے۔ پیسہ دیتے وقت وہ بس ایک ظاہری خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ اپنی اخلاقی کمزوری کے سبب زبان نہیں کھول پاتا کہ وہ کئی احتمالات کا شکار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جن لوگوں کو واقعتا یہ رسمیں برائیوں کا پلندہ نہیں لگتیں اور جو فخریہ اِن کو انجام دیتے ہیں تو عرض ہے کہ شیطان کو بھی اپنے کچھ کرتب دکھانا مقصود ہوتے ہیں۔ شیطان ایسے شخص سے کہتا ہے کہ ’’مسئلہ فقط چند روپیوں کا ہی تو ہے۔ تمہارے ان چند پیسوں سے وہ شخص فی الحقیقت امیرتو نہیں بنے گا‘‘۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ معاشرے میں ایک ’’مہلک مرض‘‘ کو پھیلنے کا سبب بنتا چلا جا تا ہے۔ ’’ہماری بستی‘‘ کے لیے یہ مرض انتہائی خطرناک ثابت ہوا ہے کہ اِس کے مہلک اثرات معاشی طور کمزور ترین افراد پر براہ راست پڑتے ہیں۔ نتیجتاً وہ ذہنی عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر معاشرے کے امراء اِن بے جا رسموں اور قبیح عادتوں سے معاشرے کے غرباء کے لیے مصیبت کا سامان پیدا کر تے ہیں۔