ظفر عالم طلعت
احباب فیس بک اور سوشل میڈیا پر میرے ردعمل کو جو اکثر وبیش تر دل ہوتا ہے۔ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ ہر بات کے جواب میں ایک ہی ردعمل کیوں دیتے ہیں۔ تو آپ سب کے لیے عرض ہے کہ اس حقیر فقیر پر تقصیر کے پاس دینے کے لیے اس کے سوا اور ہے ہی کیا۔ (ویسے بھی اس کا فائدہ یہ ہے کہ یاتو میں آپ سے متفق ہوں ورنہ اتنا ضرور ہے کہ میں اختلاف کے باوجود آپ کی رائے کا دل سے احترام کرتا ہوں)۔۔۔
یہ بات صرف کتابیں اور شاعری پڑھنے سے نہیں آتی بلکہ زندگی سکھاتی ہے۔ کچھ جلد سمجھ جاتے ہیں اور کچھ تاخیرسے۔۔۔
بات کچھ یوں ہے کہ اللہ رب العزت نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو سب سے پہلے اسے اپنی مخلوق سے محبت ہوگئی۔ اسی لیے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جب میں نے مخلوق کو پیدا کیا تو میری محبت اور رحم میرے غیظ وغضب پرچھاگیا۔
خود رسول اللہؐ بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے تھے (خو شخبری دینے والا اور ڈرانے والا) لیکن آپ نے فرمایا لوگوں کو خوش خبری اور بشارت دو اور امید دلائو۔۔ انہیں خوفزدہ مت کرو اور نہ ڈراکر دین سے دور و مایوس کرو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو رحمت اللعالمین کا لقب عطا ہوا۔۔۔
ایک شخص دوسرے کو مسکراہٹ اور محبت کے سوا کیا دے سکتا ہے۔ یہی وہ شے ہے جس میں کچھ خرچ نہیں ہوتا مگر پھر بھی انمول ہے۔ اسی لیے آپ کا اپنے بھائی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔
محبت کا معاملہ براہ راست دل سے ہے۔ اسی لیے اس پر انسان کا اختیار نہیں ہے۔ خود رسول اللہؐ کو اماں عائشہؓ سے سب سے زیادہ محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آخری ایام اور بالآخر انتقال پر ملال کے وقت آپؐ نہ صرف اماں عائشہؓ کے حجرے میں تھے بلکہ آپ کا سر مبارک اماں عائشہؓ کی گود میں تھا۔ آپؐ معصوم تھے اور آپؐ سے بڑھ کر ازواج مطہرات میں عدل وانصاف کون کرسکتا تھا۔ لیکن جہاں تک دل کے جھکائو اور محبت کا تعلق ہے وہ اماں عائشہ سے زیادہ تھی۔ اور اس پر اللہ کی طرف سے کوئی قدغن نہ تھی۔ کیونکہ آپ اختیاری چیز میں عدل وانصاف کے مکلف ہیں۔ لیکن محبت دل کا معاملہ ہے اور غیر اختیاری ہے اسی لیے دین کے قبول یا رد کرنے میں بھی کوئی زبردستی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دین رحمت اللعالمین اور صحابہ کی محبت، شفقت، رحمت اور حسن اخلاق کی وجہ سے پھیلا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اگر اللہ پکڑنے پر آجائے تو کوئی ذی روح زندہ نہ رہے۔ مگر یہ کہ اس کی محبت اور رحمت اس کے غیظ وغضب پر چھائی ہوئی ہے۔
سیدنا یعقوبؑ کو دیکھیے کہ سیدنا یوسفؑ کی محبت میں رو رو کر بینائی ضائع کردی مگر ان کے کرتے اور ان کی خوشبو محسوس کرتے ہیبینائی واپس آگئی۔ گو کہ یہ بھی اللہ کا معجزہ تھا مگر کس جذبے کے لیے۔۔ محبت۔۔ محبت اور صرف محبت۔۔۔
اسی طرح ایک صحابی نے رسول اللہؐ سے فرمایا کہ مجھے فلاں صحابی سے محبت ہے۔ تو آپؐ نے پوچھا کہ کیا یہ بات تم نے ان کو بتائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔۔۔ آپؐ نے فرمایا کہ جائو اور جاکر ان کو بتادو ۔۔۔ کیونکہ محبت تو اظہار چاہتی ہے۔ ورنہ یہ ایک سوتے بچے کو پیار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔ محبت ہی ایک ایسا جذبہ ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ رسول اللہؐ نے سیدنا عمرؓ سے پوچھا کہ تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے۔ عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کے سوا دنیا کی ہر شے سے زیادہ آپ سے محبت ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: عمرؓ جب تک تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ مجھ سے محبت نہیں ہوتی تمہارا ایمان نامکمل ہے جس پر عمرؓ نے فرمایا: یا رسول اللہؐ آج سے آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔۔۔ پس معلوم ہوا کہ محبت کے بغیر ایمان بھی مکمل نہیں ہوتا۔۔۔۔
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
جگر مرادآبادی
عشق تو نیت کی سچائی دیکھتا ہے
دل نہ جھکے تو سجدے ضائع مت کرنا
علی زریون
جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
علامہ اقبال