حصہ دوم
’’لوگوں نے پوچھا ہے‘‘ کے عنوان سے گزشتہ کالم میں ہم نے لکھا تھا: ’’تمام ممالک میں بادشاہت ہو، امارت ہو، آمریت ہو یا کسی قسم کی جمہوریت، اُن کا نظم ِ اجتماعی جو فیصلہ کرے، ہمارے اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر وہ قانوناً نافذ ہوجاتا ہے، مختلف ممالک سے اس طرح کے اعلانات آرہے تھے اور لوگ سوال کر رہے تھے۔ تاہم پنجگانہ نماز کی جماعت یا جمعۃ المبارک کی نماز کا موقوف ہونا عہدِ رسالت مآب ؐ اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں کہیں بھی ثابت نہیں ہے، البتہ کسی طاعون زدہ بستی کے بارے میں رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے: ’’جس بستی میں طاعون کی وبا آجائے، اس کے اندر کے لوگ باہر نہ جائیں اور باہر کے لوگ اس بستی میں نہ آئیں، (مسلم)‘‘۔ وبا میں مبتلا بستی سے باہر نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ اللہ کی مشیت سے بچ سکتا ہے اور باہر سے اندر نہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ میرا کچھ نہیں بگڑے گا، یہ اللہ کی مشیت کا استخفاف ہے۔ لیکن یہ ثابت نہیں ہے کہ کسی طاعون زدہ بستی میں پنجگانہ جماعت یا جمعہ موقوف کردیا گیا ہو۔
ایک خطرہ تو موہوم ہوتا ہے کہ کوئی طاعون زدہ یا وبا کا شکار کسی بستی میں جائے تو اندیشہ ہے کہ اُسے وہی بیماری لاحق ہوسکتی ہے، لیکن ہر ایک کے لیے ایسا ہونا ضروری نہیں ہے، جب میدانِ جنگ میں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہوں تو خطرہ یقینی ہوتا ہے اور ذرا سی غفلت سے بہت نقصان ہوسکتا ہے، اس کے باوجود اسلام نے جماعت کو اس حال میں بھی موقوف نہیں کیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور (اے رسولِ مکرم!) جب آپ مسلمانوں کے درمیان موجود ہوں اور (حالتِ جنگ میں) آپ نماز کے لیے کھڑے ہوں تو مسلمانوں کی ایک جماعت ہتھیار بند ہوکر آپ کے ساتھ نماز پڑھے، پس جب وہ سجدہ کرلیں (یعنی ایک رکعت مکمل ہوجائے) تو وہ تمہارے پیچھے (دشمن کے مقابل) چلے جائیں اور مسلمانوں کی دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی تھی، وہ آکر آپ کے ساتھ (دوسری رکعت) میں شامل ہو اور وہ (بھی) مسلّح ہوکر اپنی حفاظت کا سامان کیے رہیں، کافر یہ چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے اسلحہ اور سازوسامان سے غافل ہوجائو تو وہ یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں، (النساء: 102)‘‘۔ یہاں نہ صرف یہ کہ حالتِ جنگ میں جماعت کا التزام ہورہا ہے، بلکہ اس امر کا بھی اہتمام ہورہا ہے کہ لشکر کا ہر حصہ آپ کی اقتدا سے محروم نہ رہے، فقہی اعتبار سے دوسرا گروہ دوسری رکعت میں نبی ؐ کی اقتدا میں شامل ہوگا اور پھر پہلی فوت شدہ رکعت تنہا مکمل کرکے مورچے میں چلاجائے گا اور مورچہ بند مجاہدین جو پہلی رکعت آپ ؐ کی اقتدا میں پڑھ چکے تھے، آکر اپنی بقیہ نماز مکمل کریں گے، جو دوسری رکعت میں شامل ہوئے وہ مسبوق کہلاتے ہیں اور جو اپنی فوت شدہ دوسری رکعت آکر مکمل کریں گے وہ لاحق کہلائیں گے۔ اس سے نماز اور خصوصاً جماعت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ عہدِ رسالت مآب ؐ میں غزوۂ خندق میں ایک موقع ایسا آیا کہ دشمن کے خطرے کے پیشِ نظر چارنمازیں مسلسل قضا ہوگئیں، پھر آپ نے ترتیب کے ساتھ باجماعت ادا فرمائیں۔
اسی دوران نمازِ پنجگانہ کی جماعت اور نمازِ جمعہ کے التزام کے بارے میں ماریطانیہ کے شیخ احمد الکوری کا فتویٰ نظر سے گزرا اور ہمیں خوشی ہوئی کہ اُن کی فکر ہم سے مطابقت رکھتی ہے، انہوں نے لکھا ہے: عہدِ رسالت مآب ؐ اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں وبائیں آئیں، لیکن جماعت اور جمعہ کے موقوف ہونے کا فتویٰ کسی نے جاری نہیں کیا۔ البتہ کسی بستی کے لاک ڈائون ہونے کی صورت میں اندر والے نمازِ باجماعت اور جمعہ کا اہتمام کریں گے اور باہر والے اپنے اپنے علاقوں میں ایسا ہی اہتمام کریں گے۔
نمازیوں کو یہ مشورہ دینا کہ وضو گھر سے کر کے آئیں اور سنتیں گھر پر پڑھ کر آئیں، یہ شریعت کی منشاء کے مطابق ہے، اس میں شریعت کی کسی بات کی خلاف ورزی نہیں ہے، عام حالات میں بھی گھر سے وضو کر کے آنا زیادہ باعثِ برکت ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا: گھر پر نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب اکیس سے انتیس گنا تک ہے، یہ اس لیے کہ جب کوئی شخص (اپنے گھر میں) اچھی طرح وضو کرتا ہے اور پھر مسجد میں آتا ہے، اس کی آمد کا مقصد صرف نماز ہوتی ہے، تو ہرقدم جو وہ اٹھاتا ہے، اس کے بدلے میں اُس کا ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے، پھر جب مسجد میں داخل ہوتا ہے تو جب تک نماز کے انتظار میں ہے، اُسے نماز ہی کا ثواب ملتا ہے اور نماز سے فراغت کے بعد جب تک کوئی شخص اپنی جگہ بیٹھا رہتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی کو ایذانہ پہنچائے اور اس کا وضو قائم رہے، تو فرشتے اس کے لیے ان کلمات کے ساتھ دعا مانگتے ہیں: ’’اے اللہ! اس پر رحم فرما، اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما، (مسلم)‘‘۔
اسلام میں یہ خصلت پسندیدہ ہے کہ باجماعت فرائض کے علاوہ لوگ اپنے گھروں میں سنت اور نوافل پڑھتے رہیں تاکہ گھروں بھی نماز کی برکت حاصل ہو، احادیث مبارکہ میں ہے: ’’نبی ؐ نے فرمایا: (1) اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو، گھروں میں نماز پڑھا کرو، (مسند احمد)‘‘۔ (2) ’’ایسے دو گھروں کی مثال کہ ایک میں اللہ کا ذکر کیا جائے اور دوسرے میں نہ کیا جائے، زندہ اور مردہ جیسی ہے، (مسلم)‘‘۔ اللہ کے ذکر سے گھر میں روحانیت اور برکت ہوتی ہے اور برکت اٹھ جائے تو مُردنی چھاجاتی ہے۔ (3) ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو، جس گھر میں سورۂ بقرہ پڑھی جائے، شیطان اُس سے دور بھاگتا ہے، (مسلم)‘‘،
الغرض قرآن پڑھنے اور اللہ کے ذکر سے گھروں میں رونق اور برکت ہوتی ہے۔ جامعۃ الازہر کے سابق رئیس الافتاء شیخ عبدالحمید الاطرش لکھتے ہیں: ’’کسی بھی حال میں نمازِ جمعہ کا معطل کرنا جائز نہیں ہے، البتہ ایسا مریض جو چل کر جامع مسجد نہ جاسکے یا مسافر ہو تو اُس سے نمازِ جمعہ کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے‘‘۔ عمرہ چونکہ مسنون عبادت ہے، اس لیے کسی معقول عذر کے سبب اُسے عارضی طور پر موقوف کیا جاسکتا ہے، البتہ حج فرضِ عین اور رکنِ اسلام ہے، اس لیے اُسے موقوف نہیں کیا جاسکتا۔
مرض اور وبا کی صورت میں علاج کرانا سنت ہے، احتیاطی تدابیر اختیار کرنا مقاصدِ شریعہ میں سے ہے اور منجملہ تدابیر میں دعائیں بھی پڑھنا ہے۔ وبائیں سماوی بھی ہوتی ہیں اور کچھ انسانوں کی اپنی شامتِ اعمال کا بھی نتیجہ ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ’’لوگوں کے اپنے اعمال کے سبب برّوبحر میں فساد برپا ہوا تاکہ انہیں اُن کے بعض اعمال کا مزا چکھائیں تاکہ وہ (سرکشی سے) لوٹ آئیں، (الروم: 41)‘‘۔ دعا، توبہ واستغفار اور نماز سے بھی بلائیں ٹل جاتی ہیں، (2) ’’اے ایمان والو! نماز اور صبر سے (اللہ کی) مدد حاصل کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، (البقرہ: 153)‘‘۔ (3) ’’اور (اے مسلمانو!) تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں صادر ہونے والے گناہوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو وہ معاف (بھی) فرمادیتا ہے، (الشوریٰ: 30)‘‘۔
اسی طرح آج کل صابن کے ساتھ بکثرت ہاتھ دھونے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام کی فطرت اور مزاج کے عین مطابق ہے، نبی ؐ کا فرمان ہے: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے، الحمدللہ میزان کو بھردے گا، سبحان اللہ اور الحمدللہ کا نور آسمانوں اور زمین کے درمیان فضا کو معمور کردیتاہے، نماز نور ہے، صدقہ بُرہان ہے، صبر روشنی ہے، قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے، سب لوگ اس حال میں صبح کرتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کا سودا کرتے ہیں، تو کوئی اُسے آگ کے عذاب سے آزاد کردیتا ہے اور کوئی ہلاک کردیتا ہے، (مسلم)‘‘۔ البتہ یہ کہنا کہ جماعت میں نمازی اس طرح کھڑے ہوں کہ دوآدمیوں کے درمیان فاصلہ (Gap) زیادہ رکھا جائے تاکہ نمازیوں کا جسم ایک دوسرے کو مَس نہ کرے، یہ درست نہیں ہے، ہمیں نمازوں میں صف بندی رسول اللہ ؐ کی سنت کے مطابق کرنی چاہیے۔
صرف ایک مرتبہ شدید بارش اور کیچڑ کے موسم میں مسجد نبوی سے اعلان ہوا: ’’صَلُّوْ ا فِیْ بُیُوْتِکُمْ‘‘ (اپنے گھروں میں نماز پڑھو)، حدیث مبارک میں ہے: ’’عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں : سیدنا ابن عباس نے بارش کے دن اپنے مؤذن سے کہا : جب تم ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ارَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ کہہ لو تو ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ‘‘ نہ کہنا (بلکہ) کہنا: ’’اپنے گھروں میں نماز پڑھو‘‘ تو گویا لوگوں نے اس پر تعجب کیا، سیدنا ابن عباس نے کہا: اس کام کو انہوں نے کیا ہے جو مجھ سے افضل تھے، جمعہ پڑھنے کی تاکید ہے اور میں نے تمہیں حرج میں ڈالنا ناپسند کیا کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں چلو گے، (بخاری)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا مسجد میں موجود لوگوں کے ساتھ عبداللہ بن عباس نے نمازِ جمعہ پڑھی۔ ہم الگ فتوے میں درج کرچکے ہیں کہ اس طرح کرنے سے بھی سنتِ اذان ادا ہوجائے گی اور اذان دہرانے کی حاجت نہیں رہے گی۔
تاہم ہمارے نزدیک افضل یہ ہے کہ سنتِ متوارثہ کے مطابق اذان مکمل کی جائے اور ایسے حالات میں اذان کے بعد اعلان کردیا جائے۔ واضح رہے کہ اُس وقت مسجدِ نبوی کچی تھی، گلیاں بھی کیچڑ والی تھیں اور اندھیرا بھی تھا، رسول اللہ ؐ نے اسے عام معمول نہیں بنایا، بلکہ خاص موقع پر یہ رخصت دی، نیز یہ کہ کیچڑ کا باعثِ تکلیف ہونا تو عادی امر ہے، جبکہ و ائرس سے موت کا واقع ہونا ایک موہوم امر ہے، اب بالعموم مسجدیں اور گلیاں پکی ہوتی ہیں، راستوں میں روشنی ہوتی ہے، نہ مسجدیں ٹپکتی ہیں اور نہ گلیوں میں اس طرح کا کیچڑ ہوتا ہے کہ چھینٹوں سے بچ کر گزرنے کا راستہ بھی نہ ملے۔