محمد نجیب قاسمی
سیدنا حسن وحسینؓ کی والدہ اور نبی اکرمؐ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی سیدہ فاطمہ زہراؓ کی ولادت بعثت نبوی سے تقریباً پانچ سال قبل سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ فاطمہؓ کی ولادت کے وقت نبی اکرمؐ کی عمر تقریباً 35 سال تھی۔
نبی اکرمؐ کی تمام اولاد نرینہ کی وفات بالکل بچپن ہی میں ہوگئی تھی چنانچہ آپؐ کے تینوں بیٹوں میں سے کوئی بھی بیٹا 2-3 سال سے زیادہ باحیات نہ رہ سکا۔ چاروں بیٹیوں میں سے بھی تین کی وفات آپؐ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں ہوگئی تھی۔ سیدہ فاطمہؓ کا انتقال آپؐ کی وفات کے 6 ماہ بعد ہوا۔ آپؐ کی چاروں بیٹیوں میں سے کوئی بھی بیٹی 30 سال سے زیادہ باحیات نہ رہ سکی۔ نبی اکرمؐ کی زندگی کے آخری سالوں میں تو رسول اللہؐ کی توجہات ومحبت کا مرکز فطری طور پر سیدہ فاطمہؓ بن گئی تھیں، یوں بھی وہ نبی اکرمؐ کی بہت ہی چہیتی بیٹی تھیں۔ آپؐ کی چاروں بیٹیاں مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان (البقیع) میں مدفون ہیں۔
سیدہ فاطمہؓ کی تربیت:
سیدہ فاطمہ زہراؓ نے اپنی والدہ ماجدہ خدیجہؓ کے زیر سایہ تربیت اور پرورش پائی۔ ابھی فاطمہؓ 15 سال کی تھیں کہ ماں کی شفقت سے محروم ہوگئیں۔ خدیجہؓ کے انتقال کے بعد آپؐ نے فاطمہؓ کی خصوصی تربیت فرمائی۔ نبی اکرمؐ کی آیا (مربیہ): سیدہ ام ایمنؓ اور سیدنا علیؓ کی والدہ: سیدہ فاطمہ بنت اسدؓ نے بھی سیدہ فاطمہؓ کی تربیت اور پرورش میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ سیدہ فاطمہؓ کی بہنوں نے بھی آپؓ کی ہمہ وقت دل جوئی فرمائی۔
فاطمہؓ نبی اکرمؐ کے مشابہ تھیں
سیدہ فاطمہؓ جس وقت چلتیں تو آپ کی چال ڈھال رسول اللہؐ کے بالکل مشابہ ہوتی تھی۔ (مسلم) اسی طرح سیدہ عائشہؓ کی روایت ہے کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عادات واطوار میں فاطمہؓ سے زیادہ کسی کو رسول اللہؐ سے مشابہ نہیں دیکھا۔ (ترمذی) غرضیکہ سیدہ فاطمہؓ کی چال ڈھال اور گفتگو وغیرہ میں رسول اللہؐ کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی۔
رسول اللہؐ کی خدمت:
فاطمہ زہراؓ بچپن سے ہی رسول اللہؐ کی بڑی خدمت کرتی تھیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہؐ مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے، قریش کے چند بدمعاشوں نے شرارت کے غرض سے اونٹ کی اوجھڑی لاکر نبی اکرمؐ پر ڈال دی اور خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔ کسی نے سیدہ فاطمہؓ کو خبر دی تو وہ دوڑی دوڑی آئیں اور نبی اکرمؐ پر سے اوجھڑی کو اتار کر پھینکا۔
اسی طرح ایک مرتبہ نبی اکرمؐ مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ کسی بدبخت نے مکان کی چھت سے آپؐ کے سر مبارک پر گندگی پھینک دی۔ آپؐ اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ فاطمہؓ نے یہ حالت دیکھی تو رونے لگیں اور پھر سر مبارک اور کپڑوں کو دھویا۔
فاطمہؓ نہ صرف عمومی حالات میں بلکہ سخت ترین حالات میں بھی نہایت دلیری اور ثابت قدمی سے اللہ کے رسولؐ کی خدمت کرتی تھیں۔ جنگ احد میں جب اللہ کے رسولؐ کے دندان مبارک شہید ہوگئے تھے اور پیشانی پر بھی زخم آئے تھے تو فاطمہؓ احد کے میدان پہنچیں اور اپنے والد محترم کے چہرے کو پانی سے دھویا اور خون صاف کیا۔ غرضیکہ فاطمہؓ نے اپنے والد کی خدمت کا حق ادا کیا۔
شادی کے بعد کام کی تقسیم:
سیدنا علیؓ کے پاس کوئی خادم یا خادمہ نہیں تھی، اس لیے نبی اکرمؐ نے فاطمہ اور علیؓ کے درمیان کام کو اس طرح تقسیم کردیا تھا کہ فاطمہؓ گھر کے اندر کے کام کیا کرتی تھیں: مثلاً چکی سے آٹا پیسنا، آٹا گوندھنا، کھانا پکانا اور گھر کی صفائی وغیرہ اور علیؓ گھر سے باہر کے کام انجام دیا کرتے تھے۔ (زاد المعاد)
تسبیح فاطمی:
ایک مرتبہ نبی اکرمؐ کی خدمت میں کچھ غلام اور باندیاں آئیں تو علیؓ نے فاطمہؓ کو مشورہ دیا کہ اس موقع پر تم نبی اکرمؐ کی خدمت میں جاکر ایک خادمہ کا مطالبہ کرو، جو تمہاری گھریلو ضروریات میں تمہارے ساتھ تعاون کرسکے۔ فاطمہؓ اسی غرض سے نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اْس وقت آپؐ کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر تھے، اس لیے فاطمہؓ واپس آگئیں۔ بعد میں نبی اکرمؐ سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے تو اس وقت علیؓ بھی موجود تھے۔ نبی اکرمؐ نے دریافت فرمایا کہ فاطمہ تم اْس وقت مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھیں؟ فاطمہؓ تو حیا کی بنا پر خاموش رہیں، لیکن سیدنا علیؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! چکی پیسنے کی وجہ سے فاطمہ کے ہاتھوں میں چھالے اور مشکیزہ اٹھانے کی وجہ سے جسم پر نشان پڑ گئے ہیں۔ اس وقت آپؐ کے پاس کچھ خادم ہیں تو میں نے ہی ان کو مشورہ دیا تھا کہ یہ آپ اسے ایک خادم طلب کرلیں تاکہ اس مشقت سے بچ سکیں۔ نبی اکرمؐ نے یہ سن کر فرمایا کہ اے فاطمہ! کیا تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں جو تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے۔ جب تم رات کو سونے لگو تو 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ (ابو داؤد) آپؐ نے اپنی چہیتی بیٹی کو خادم یا خادمہ نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا بہترین بدلہ یعنی تسبیحات عطا فرمائیں، ان تسبیحات کو امت مسلمہ تسبیح فاطمی کے نام سے جانتی ہے۔
سیدہ فاطمہؓ کی وفات:
نبی اکرمؐ کی وفات کے تقریباً 6 ماہ بعد سیدہ فاطمہؓ چند روز کی علالت کے بعد 3 رمضان المبارک 11ھ کو بعد نماز مغرب 29 سال کی عمر میں انتقال فرما گئیں اور عشا کی نماز کے بعد دفن کردی گئیں۔