محمد رضی الاسلام ندوی
سوال: کورونا وائرس کی تباہ کاری پوری دنیا میں جاری ہے اور اس میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے وزیر اعظم (بھارتی) نے دو روز قبل شام 5 بجے تالی پیٹنے اور تھالی بجانے کا مشورہ دیا تو بہت سے لوگوں نے اس پر عمل کیا۔ بعض لوگوں نے اس کے بجائے اذان دینی شروع کردی۔ اب ایسے اعلانات سامنے آنے لگے ہیں کہ رات کو دس بجے سب لوگ مل کر اذان دیں۔
براہ کرم واضح فرمائیں کہ کسی وبائی مرض کو دفع کرنے کے لیے اذان دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: اللہ کے رسولؐ کے زمانے میں ایک مکتبہ سورج گرہن ہوا تو آپؐ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور طویل نماز پڑھی، پھر آپ نے ان کے سامنے خطبہ دیا، جس میں بتایا کہ جب کبھی ایسی صورت حال پیش آئے تو انہیں کیا کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ سے دعا کرو، اس کی کبریائی بیان کرو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو‘‘۔ (بخاری)
اس حدیث میں چار کاموں کی ہدایت کی گئی ہے۔ جب بھی کوئی غیر طبعی واقعہ پیش آئے، کوئی حادثہ ہو، آدمی کسی مصیبت کا شکار ہو یا اجتماعی طور سے کوئی بلا عام ہو تو ان چار کاموں کا انفرادی اور اجتماعی طور پر اہتمام کرنا چاہیے۔ علامہ طیبی نے مذکورہ بالا حدیث کی تشریح میں لکھا ہے: ’’اس حدیث میں بلا دور کرنے کے لیے ذکر، دعا، نماز اور صدقے کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔ (بحوالہ فتح الباری: 531/2)
اذان کی مشروعیت اصلاً نماز کے اعلان کے مقصد سے کی گئی ہے، البتہ بعض دیگر کاموں کے لیے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے، مثلاً بعض احادیث میں نومولود کے کان میں اذان دینے کا ذکر ہے، آگ زنی کے وقت بھی اذان دینے کی بات کہی گئی ہے۔
کیا وبا سے تحفظ کے لیے بھی اذان دی جاسکتی ہے؟ اس سلسلے میں علمائے متقدمین سے کوئی صراحت نہیں ملتی۔ معاصر علما سے دونوں طرح کی رائیں منقول ہیں۔
مفتی امجد علی کی کتاب ’بہار شریعت‘ میں ہے:
’’وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے‘‘۔ (بہار شریعت:466/1 ، فتاویٰ رضویہ مخرّجہ :370 /5)
جبکہ مولانا رشید احمد لدھیانوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے اس کی شرعی حیثیت کا انکار کیا ہے:
’’وبا کے وقت اذان دینا شرعاً ثابت نہیں۔ اس کو سنت یا مستحب سمجھنا درست نہیں‘‘۔ (احسن الفتاوی :375 /1 ، فتاویٰ رشیدیہ :152)
میری رائے میں ایسے مواقع پر صرف انہی کاموں پر اکتفا کرنا چاہیے جو حدیث سے ثابت ہیں، دوسرے کاموں سے احتراز کرنا چاہیے، چنانچہ وبائی مرض سے تحفّظ کے لیے ذکر، دعا، نماز اور صدقے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ انفرادی یا اجتماعی طور پر اذان دینے کی ضرورت نہیں۔
٭…٭…٭