سید ابو الاعلی مودودی ؒافکار

296

لیلۃ مبارکۃ
مزید بات یہ فرمائی گئی کہ وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی جس میں اس (کتاب) کو نازل کیا گیا۔ یعنی نادان لوگ، جنہیں اپنی بھلائی برائی کا شعور نہیں ہے، اس کتاب کی آمد کو اپنے لیے بلائے ناگہانی سمجھ رہے ہیں اور اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں۔ لیکن در حقیقت ان کے لیے اور تمام نوع انسانی کے لیے وہ ساعت بڑی سعید تھی جب ’’ہم‘‘ نے غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانے کے لیے یہ کتاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس رات میں قرآن نازل کرنے کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ اس رات شروع ہوا۔ اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن امّ الکتاب سے منتقل کرکے حامل وحی فرشتوں کے حوالے کر دیا گیا اور پھر وہ حالات و وقائع کے مطابق جسب ضرورت نبیؐ پر 23 سال تک نازل کیا جاتا رہا۔ صحیح صورت معاملہ کیا ہے، اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورہ قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ وہاں فرمایا گیا کہ : اِنَّا اَنزَلنٰہْ فِی لَیلَۃِ القَدرِ ، اور یہاں فرمایا کہ : اِنَّآ اَنزَلنٰہْ فِی لَیلَۃٍ مّْبَا رَکَۃٍ۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی۔
(تفہیم القرآن، سورہ الدخان حاشیہ نمبر1)
٭…٭…٭
سورہ قدر میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : ’’اس رات ملائکہ اور جبریل اپنے رب کے اِذن س ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے شاہی نظم ونسق میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کر کے اپنے فرشتوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ اور پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عملدرآمد کرتے رہتے ہیں۔بعض مفسرین کو جن میں حضرت عکرمہ سب سے زیادہ نمایاں ہیں، یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے، کیوں کہ بعض احادیث میں اسی رات کے متعلق یہ بات منقول ہوئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ابن عباس، ابن عمر، مجاہد ، قتادہ، حسن بصری، سعید بن جبیر، ابن زید، ابو مالک، ضحاک اور دوسرے بہت سے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رمضان کی وہی رات ہے جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے، اس لیے کہ قرآن مجید خود اس کی تصریح کر رہا ہے، اور جہاں قرآن کی صراحت موجود ہو وہاں اخبار احاد کی بنا پر کوئی دوسرے رائے نہیں قائم کی جا سکتی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ’’عثمان بن محمد کی جو روایت امام زہری نے شعبان سے شعبان تک قسمتوں کے فیصلے ہونے کے متعلق نقل کی ہے وہ ایک مرسل روایت ہے، اور ایسی روایات نصوص کے مقابلے میں نہیں لائی جا سکتیں‘‘۔ قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں کہ ’’نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ (احکام القرآن)
(تفہیم القرآن، سورہ الدخان حاشیہ نمبر3)