نمازوں کے لیے مساجد بند کرنا

892

صحابہؐ کرامؓ کے دور میں اور بعد کے اَدوار میں بھی طاعون وغیرہ کی وبائیں پھیلی ہیں، جن کی ہلاکت خیزی تاریخ کے قاری پر مخفی نہیں ہے، لیکن سلفِ صالحین نے سخت ہلاکت کے مواقع پر بھی مساجد کی بندش اور جمعات بالکلیہ ترک کرنے کے فتاویٰ اور اَحکام صادر نہیں فرمائے، بلکہ ان کے اَدوار میں مساجد کی طرف رجوع مزید بڑھ گیا، جیساکہ قاضی عبد الرحمن القرشی الدمشقی الشافعی اپنے زمانہ میں 764 ھ کے طاعون سے متعلق لکھتے ہیں:
’’جب طاعون پھیل گیا اور لوگوں کو ختم کرنے لگا، تو لوگوں نے تہجد، روزے، صدقہ اور توبہ واستغفار کی کثرت شروع کردی اور ہم مردوں، بچوں اور عورتوں نے گھروں کو چھوڑدیا ہے اور مسجدوں کو لازم پکڑ لیا، تو اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا‘‘۔
حیاۃ الصحابہ میں ہے :
’’سعید بن مسیبؒ کہتے ہیں: جب ابوعبیدہؓ اْردن میں طاعون میں مبتلا ہوئے تو جتنے مسلمان وہاں تھے ان کو بلا کر ان سے فرمایا:
میں تمہیں ایک وصیت کررہا ہوں اگر تم نے اسے مان لیا تو ہمیشہ خیر پر رہو گے اور وہ یہ ہے کہ نماز قائم کرو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، زکوٰۃ ادا کرو، حج وعمرہ کرو، آپس میں ایک دوسرے کو (نیکی کی) تاکید کرتے رہو اور اپنے امیروں کے ساتھ خیرخواہی کرو اور ان کو دھوکا مت دو اور دنیا تمہیں (آخرت سے) غافل نہ کرنے پائے؛ کیوں کہ اگر انسان کی عمر ہزار سال بھی ہوجائے تو بھی اسے (ایک نہ ایک دن) اس ٹھکانے یعنی موت کی طرف آنا پڑے گا جسے تم دیکھ رہے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کے لیے مرنا طے کر دیا ہے، لہٰذا وہ سب ضرور مریں گے اور بنی آدم میں سب سے زیادہ سمجھ دار وہ ہے جو اپنے ربّ کی سب سے زیادہ اطاعت کرے اور اپنی آخرت کے لیے سب سے زیادہ عمل کرے۔
تاہم قرآنِ مجید، احادیثِ مبارکہ اور محدثینِ کرام اور فقہا کرام کی عبارات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کسی علاقے میں واقعتاً کوئی وبا (کرونا وائرس وغیرہ) عام ہوجائے تو اس علاقے میں موجودہ مریضوں کو جماعت میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ اور (حقیقتاً مرض پائے جانے کی صورت میں) دیگر اہلِ محلہ (جو اس وبائی مرض میں مبتلا نہ ہوں) کے لیے مساجد میں نماز نہ پڑھنے کی رخصت تو ہوگی، البتہ اس محلے کے چند لوگوں کو مسجد میں باجماعت نمازوں کا اہتمام کرنا ضروری ہوگا اور اگر مسجد میں باجماعت نماز پورے محلے والوں نے ترک کردی تو پورا محلہ گناہ گار ہوگا؛ کیوں کہ مسجد کو اس کے اعمال سے آباد رکھنا فرضِ کفایہ ہے۔
نیز جو لوگ مسجد کی جماعت میں شریک نہ ہوں انہیں بھی چاہیے کہ وہ جماعت ترک نہ کریں، بلکہ پنج وقتہ فرض نمازیں گھروں یا دفاتر میں موجود افراد کی جماعت کے ساتھ ادا کریں؛ تاکہ حتی الامکان جماعت کا اجر و ثواب حاصل ہوجائے۔
اور جس علاقے میں کرونا وائرس کی وبا عام نہ ہو تو کرونا وائرس کے ڈر سے جماعت کی نماز ترک کردینا شرعی عذر نہیں ہے، بلکہ توہم پرستی ہے جو کہ ممنوع ہے۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ انتظامیہ یا اہلِ محلہ کا مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے پر پابندی لگانا جائز نہیں ہے، جمعہ اور پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ اوقات میں مساجد بند کرنے کی اجازت ہے۔ مساجد کو بالکلیہ معطل کرنے اور ان میں نمازوں اور ذکر پر پابندی لگانے کے حوالے سے نصوص میں سخت وعید وارد ہوئی ہے اور ان کے اس عمل کو ’’ظلم‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: ’’اور اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہوگا جو خدا تعالیٰ کی مسجدوں میں ان کا ذکر (اور عبادت) کیے جانے سے بندش کرے اور ان کے ویران (ومعطل) ہونے (کے بارے) میں کوشش کرے۔ ان لوگوں کو تو کبھی بے ہیبت ہوکر ان میں قدم بھی نہ رکھنا چاہیے تھا، (بلکہ جب جاتے ہیبت اور ادب سے جاتے) ان لوگوں کو دنیا میں بھی رسوائی (نصیب) ہوگی اور ان کو آخرت میں بھی سزائے عظیم ہوگی۔ (البقرۃ:114)
بعض ممالک میں جمعہ یا جماعت سے نماز پر پابندی لگ جانے کی صورت میں عامۃ الناس کے لیے حل:
اگر کسی ملک کی حکومت یا مقامی انتظامیہ کی جانب سے باجماعت نمازوں پر پابندی لگادی جائے تو حکمت و تدبیر کے ساتھ پر امن انداز میں انہیں اسلامی اَحکام سے آگاہ کریں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ اس پابندی ہٹا دیں۔ اور جب تک پابندی رہے تو خوفِ ظلم کی وجہ سے اور حرج کی نفی کے پیشِ نظر مسجد کی نماز چھوٹ جانے کا عذر معتبر ہے، ایسی صورت میں کوشش کیجیے کہ گھر پر ہی باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔
اور جمعہ کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہذا امام کے علاوہ کم از کم تین مقتدی ہوں تو جمعہ نماز صحیح ہوجائے گی؛ لہذا مسجد کی اذانِ ثانیہ کے بعد (اگر مسجد میں اذان نہ ہو تو خود اذان دے دیں) امام خطبہ مسنونہ پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھا دے، چاہے گھر میں ہوں یا کسی اور جگہ جمعہ ہو کر پڑھ لیں۔
(دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)