افغان وحدت و استقلال کے امین (حصہ پنجم)

300

افغانستان کی زبان اور جغرافیائی بنیاد پر تقسیم کی سازش کے آگے حزب اسلامی شعوری طور بند باندھے کھڑی تھی۔ انجینئر گلبدین حکمتیار اس پورے منظر نامے سے باخبر تھے۔ جن کی کوشش تھی کہ سرسری اور وقتی اقدامات کے بجائے راست راہ اختیار کی جائے۔ حکمتیار نے عبوری دور میں بھی وزارت دفاع احمد شاہ مسعود کے بجائے تمام افغان تنظیموں کے نمائندہ کمانڈروں کے حوالے کرنے کی تجویز دی تھی، اس طرح یہ اہم وزارت عبوری حکومت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ نیز یہ افغانستان کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہوسکے گی۔ ظاہر شاہ اور سردار دائود کے ادوار میں پاکستان کے اندر بلوچ علٰیحدگی، سندھیوں کے اندر ریاست مخالف جذبات بھڑکانے اور پشتون علٰیحدگی کی مسلح تحریک پشتون زلمئی کی سرپرستی ہوتی تھی، جسے بھارت بالخصوص سپورٹ کرتا تھا۔ پاکستان سے گئے تمام علٰیحدگی پسندوں کے مالی اخراجات بھی بھارت نے اُٹھا رکھے تھے۔ سردار دائود کو پاکستان کی نیشنل عوامی پارٹی یعنی نیپ کی سرپرستی پر بھی قائل کیا گیا تھا۔ دراصل پاکستان کے پشتون قوم پرست اور عبدالولی خان نے سردار دائود کی توجہ منفی سرگرمیوں اور پاکستان مخالفت پالیسی پر مرکوز کرائی تھی۔ اقتدار کے آخری دنوں سردار دائود اس فریب کو سمجھ گئے تھے۔ اس پالیسی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان خلیج پیدا کی۔ علی الخصوص یہ اقدامات و پالیسیاں افغانستان کے لیے مسائل کا موجب بنیں۔ کابل پر 28 اپریل 1978 کے قبضے کے بعد یہ خلیج مزید وسیع ہوگیا۔ پاکستان کی سلامتی غیر یقینی بن گئی۔ اس بنا پاکستان نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف عسکری، سیاسی اور سفارتی سطح پر قطعی پالیسی اپنائی۔ گویا ظاہر شاہ اور سردار دائود بعد ازاں کمیونسٹوں کی حکومتی پالیسیاں افغانستان کے استحکام و مفاد اسی طرح پاکستان کے پشتون عوام کے مفادات کے خلاف گئیں۔
روسی افغان کمیونسٹوں کو احمق کہتے تھے، واقعی یہ احمق اپنی اصلاح آخر تک نہ کرسکے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد بھارتی گٹھ جوڑ سے پھر پشتون نوجوان خوشنما نعروں کے سحر میں مبتلا کیے گئے۔ وہ بھی آخری وقتوں میں کہ جب امریکا نکل رہا ہے، اور پاکستان کے اندر پشتون تحفظ موومنٹ کی صورت میں پریشر گروپ متعارف کرایا گیا۔ کچھ ترمیم کے ساتھ باقی نقشہ وذہن وہیں 1950، 1960، 1970ء اور 1980 کی دہائی کا ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس گروہ کے بطن سے بھی شر ہی نمودار ہورہا ہے۔ اس ذیل میں یہ کہنا بھی بے محل نہ ہوگا کہ فروری 2018ء کے عام انتخابات کے دوران ایک اہم شخصیت نے راقم کو بتایا کہ پاکستان میں متعین چین کے سفیر نے پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ کسی کے ذریعے محمود خان تک چینی سفیر کا پیغام پہنچایا گیا۔ محمود خان اچکزئی نے ملاقات سے انکار کیا، اور موقف یہ اختیار کیا کہ اُن کی جماعت افغانستان کے اندر چین کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتی ہے اس لیے وہ ملاقات نہیں کر سکتے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مکتبہ فکر نے کتنی نچلی سطح کی سوچ اپنا رکھی ہے!!۔
غرض ماسکو ہو یا بھارت دونوں کے سیاسی، عسکری و تزویراتی اہداف تھے جن کے لیے افغان پشتون عوام آلہ کار بنائے گئے۔ ان ممالک کو افغانستان کے مستقبل اور وحدت سے سروکار نہ تھا اور نہ ہی اب امریکا اور بھارت کو کوئی غرض ہے۔ مثلاً جب افغانستان میں روسی اہداف تک پہنچنے میں ناکام ہوئے، تو ان کے ہاں سوچ و بچار ڈیورنڈ لائن کے قضیے بارے بھی ہوئی۔ وہ اس طرح کہ آیا اگر پاکستان کو ڈیورنڈ لائن مستقل سرحد تسلیم کرنے کی پیشکش کی جائے، جس کے بدلے وہ مجاہدین کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں۔ چناںچہ اگر پاکستان اور ماسکو کے درمیان فی الواقع اس تناظر میں بات ہوتی تو یقینی طور ماسکو، کابل حکومت کو خاطر میں لائے بغیر سمجھوتا کرلیتا۔ کیونکہ ان کی حکومت کی طنابیں مطلق ماسکو کے ہاتھ میں تھیں۔ بالخصوص پرچمی دور میں افغانستان کی خارجہ و داخلہ امور کے تمام اختیارات روس کے سیاسی بیورو کے تحت اعلیٰ کمیشن کے پاس تھے۔ اس کمیٹی کے سربراہ کے جی بی کے چیف اندروپوف تھے۔ روسی وزیر دفاع ’’اوستینوف‘‘ وزیر داخلہ ’’گرومیکو‘‘ اور روس کی کمیونسٹ پارٹی کے امور خارجہ کے شعبے کے سربراہ ’’پانا ماریوف‘‘ اس کے اراکین تھے۔ کابل کی حکومت نے عملاً مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک کی طرح سویت یونین کی حاکمیت تسلیم کرلی تھی۔ اور پورے کا پورا انحصار سویت یونین پر تھا۔ سویت یونین کی وزارت خارجہ کے متعین عملہ کی اجازت کے بغیر افغان حکومت اور وزارت خارجہ کو کسی بھی نوعیت کے ٹیلی گرام، فائلیں اور مراسلے دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ حد یہ ہوئی کہ کابل کی کمیونسٹ رجیم نے بھی توسیع پسندانہ خواہشات اپنا رکھی تھیں۔
نور محمد ترہ کئی نے روسی صدر برژنیف کے سامنے پاکستان کی حدود کے اندر توسیع کی تجویز رکھی۔ نور محمد ترہ کئی نے روسی صدر کو ملاقات میں کہا کہ ’’ماسکو افغانستان کو ہند یعنی پاکستان کے سمندر تک وسعت دے۔ پاکستان کے پشتون اور بلوچوں کو ’’امپریلسٹوں‘‘ سے آزادکرنا چاہیے۔ اور اب یہ موقع آیا کہ ہم (ماسکو اور کابل) پاکستان کے اندر پشتون بلوچ تحریکیں اُٹھائیں اور پاکستان کے بلوچ پشتون خطے کو افغانستان کا حصہ بنالیں۔ افغانستان کی سرزمین کی خلیج عمان اور ہند کے سمندر تک وسعت ہونی چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنی فوج ڈیورنڈ لائن جسے ہم تسلیم نہیں کرتے کے اس پار دریائے اباسین تک حرکت دیں تاکہ یہ علاقے افغانستان کا حصہ بنیں‘‘۔ حفیظ اللہ امین نے امریکی دانشور و مصنف ہیری سن کے سامنے بھی ایسا ہی نقطہ نظر بیان کیا تھا کہ ’’پاکستان ہم سے چاہتا ہے کہ بلوچ اور پشتونوں کے حوالے سے بات نہ کریں۔ ہم یہ کیسے تسلیم کرسکتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کو بھول جائیں۔ پاکستا ن کے پشتون اور بلوچ عوام کابل حکومت کے دفاع میں کھڑے ہوں گے اور ثور انقلاب (27اپریل 1978) پشتونستان کے مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغان انقلاب اور پشتونستان کا مسئلہ باہم مربوط ہیں‘‘۔ اگرچہ گرم پانیوں تک پہنچنے کی آرزو 1917ء کے روسی کمیونسٹ انقلاب سے پہلے روس کی زار شاہی نے بھی دل میں بسا رکھی تھی۔ افغانستان عملاً سویت یونین کے ہتھے چڑھ گیا۔ لہٰذا پاکستان کے اندر کمیونسٹ یا بائیں بازو کی قوتوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کمیونسٹ روس کے پیشِ نظر تھا۔ پاکستان کے کمیونسٹ حلقوں کے معاملات دیکھنے کے لیے بھی سویت یونین کی سیاسی بیورو نے نمائندے متعین کر رکھے تھے۔
(جاری ہے)