ایک نادر موقع

653

کورونا کی وبا نے ایک نادر موقع فراہم کیا ہے۔ شیخ سعدی کے ایک شعر سے آغاز کرتے ہیں۔۔۔ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد۔۔۔ ہر کہ خود رادید او محروم شد۔۔۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جس انسان نے خدمت خلق کو اپنا شعار بنا لیا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگ اس کی خدمت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ قابل تعظیم اور انسانوں کا محسن قرار پاتا ہے اور جس شخص کی خدمات محض اپنی ذات تک محدود رہیں وہ ایک اعلیٰ وصف، سر بلندی اور سرفرازی سے محروم ہوگیا۔
مخلوق کی بے لوث خدمت اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے قریب کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب ہی انسان کے وجود اور اس کی زندگی کا مقصد ہے۔ خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت یہی دین مبین کا خلاصہ ہے۔ رسالت مآب سیدنا محمدؐ کا ارشاد ہے ’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ شخص وہ ہے جو اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے والا ہے‘‘۔ ایک اور جگہ عالی مرتبت سیدنا محمدؐ کا فرمان ہے ’’اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘۔ بخاری شریف کتاب الا یمان میں سیدا لمرسلینؐ کی حدیث ہے ’’اسلام کا بہترین عمل کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا ہے‘‘۔ ایک اور مقام پرآپؐ کا ارشاد عالی ہے ’’جو آسودہ ہوکر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا‘‘۔ ایک حدیث میں سرور کونینؐ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمائیں گے ’’اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تھا تو تونے میری عیادت نہیں کی‘‘۔ بندہ کہے گا ’’یااللہ آپ تو ربّ العالمین ہیں میں کیسے آپ کی عیادت کرتا؟‘‘۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمائیں گے ’’میرا فلاں بندہ بیمارتھا تو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تو اس کی مزاج پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا‘‘۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمائیں گے ’’اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھے کھانے کو دیا تھا لیکن جب میں بھوکا تھا تو تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا‘‘۔ بندہ کہے گا ’’پروردگار! آپ تو ربّ العالمین ہیں میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا؟‘‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمائیں گے ’’میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تونے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا‘‘۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمائیں گے ’’اے آدم ؑ کے بیٹے میں نے تجھے پانی دیا لیکن میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا‘‘۔ بندہ کہے گا ’’آپ تو ربّ العالمین ہیں میں کیسے آپ کو پانی پلاتا‘‘۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمائیں گے ’’میرا فلاں بندہ پیاسا تھا اگر تو اسے پانی پلاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا‘‘۔ ویسے تو آپؐ کی فرمائی ہوئی ہر بات ہی خوبصورت ہوتی ہے لیکن اس حدیث میں کیا ہی حسین پیرائے میں خدمت خلق کی عظمت کا احساس دلایا گیا ہے۔ مال ودولت اگر صحیح مصرف، صحیح مقام اور صحیح وقت پر خرچ ہو تو اس کی قدرومنزلت لامتناہی ہو جاتی ہے۔
کورونا وائرس سے ایک طرف وہ لوگ ہیں جو بیماری کا شکار ہیں اور دوسری طرف وہ جو بے روزگاری کا۔ احتیاط ناگزیر ہے لیکن ان لوگوں میں اتنی سکت نہیں کہ گھر میں بیٹھ سکیں۔ حکومتوں کے موہوم فیصلوں نے جن کی زندگیوں کو پہلے ہی برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ لوگ کسی بھی حکومتی اقدام کو حقیقت سمجھتے ہیں نہ سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے بے پناہ شور کے باوجود لوگ خوفزدہ ہیں اور نہ احتیاطی تدابیر پر عمل کررہے ہیں۔ وہ حکومتیں جنہوں نے اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے، امریکا کی دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کرکے، دو عشروں تک بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی صورت، موت کو لوگوں کے روزوشب کا معمول بنادیا، الطاف حسین جیسے خونخوار درندے کو روزانہ کی بنیاد پر، لوگوں کو چیرنے پھاڑنے کے لیے کراچی اور دیگر ملحقہ شہروں میں کھلا چھوڑ دیا، لوگ اب حکومتوں کا اعتبار کرتے ہیں اور نہ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ لوگ موت کے عادی ہوگئے ہیں یا بے خوف! اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔
جب سے کورونا کی وبا کے خلاف حکومتی اقدام سامنے آئے ہیں ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گھروں میں تین تین مہینے کا راشن جمع کرلیا ہے۔ کریانے کی دکانیں اور اسٹور خالی کردیے ہیں۔ جو یہ سوچتے ہیں کہ کوئی بھی آفت آئے دنیا مرجائے لیکن وہ آفت ان کے گھروں کا رخ نہ کرے۔ جنہیں خبر ملتی ہے کہ کلورو کوئین کی ٹیبلٹس کورونا میں شفا بخش ہیں تو دس پندرہ روپے میں ملنے والا ریسوچن کا پتا تین سو چار سو روپے میں بھی خرید لیتے ہیں۔ سودا سلف کی دکانیں بند ہوجائیں، شہر لاک ڈائون ہوجائیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا سوائے اس کے کہ ان کی شام کی تفریحات اور ہوٹلنگ متاثر ہوگی اور بس۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا شیخ سعدی نے دوسرے مصرع میں ذکر کیا ہے جو انسانیت کے ایک اعلیٰ وصف اور سر بلندی سے محروم رہ گئے ہیں۔ لاک ڈائون ان کا مسئلہ نہیں۔ پھر کن کا مسئلہ ہے؟۔ آئیے دیکھتے ہیں۔
ملک کی ستر فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے انہیں الیکشن کے موقع پر پتا چلتا ہے کہ حکومت نامی کسی چیز کا وجود ہے جو ان کے ووٹوں سے بنتی ہے۔ الیکشن میں کوئی آئے کوئی جائے انہیں فرق نہیں پڑتا۔ انہیں اسی وڈیرے، زمیندار، جاگیردار، نواب اور گدی نشین کی چاکری کرنی ہے جو انہیں بقدر زندگی زندہ رہنے کا سامان فراہم کرتا ہے۔ ہر سال سیلاب آتے ہیں انہیں بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ سیلابی ریلوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ ان کے گھر بہِ جائیں، مال مویشی مرجائیں انہیں حکومتوں سے امید ہوتی ہے نہ کوئی شکوہ۔ وہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ کورونا ان لوگوں کا مسئلہ نہیں۔ جہاں تک شہروں کا خصوصاً کراچی جیسے شہروں کا تعلق ہے جہاں نصف سے زائد آبادی دہاڑی پر زندہ رہتی ہے۔ جو روز مزدوری کرنے کے بعد گھر کا سودا سلف خریدتے ہیں۔ جن کے گھروں میں دہاڑی تعین کرتی ہے کہ آج کیا پکے گا؟ پکے گا بھی یا نہیں۔ جن کی مسلسل دہاڑی لگتی رہتی ہے ان کے گھر میں بھی اتنا سامان نہیں ہوتا کہ تین چاردن سے زیادہ چل سکے۔ یہ جو آتے جاتے آپ سڑکوں پر مزدوروں کو چھینی، ڈرل مشینیں، ہتھوڑے، برش، رنگوں کے چارٹ لیے بیٹھے دیکھتے ہیں کیا ان میں اتنی سکت ہے کہ وہ کورونا کے سبب لاک ڈائون برداشت کرسکیں۔
ایک تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا روزگار لوگوں کی سرگرمیوں سے وابستہ ہے۔ جب آپ بسوں میں ویگنوں میں موٹر سائیکلوں پر کاروں میں گاڑیوں میں سڑکوں پر نکلتے ہیں تو بسوں ویگنوں میں چیزیں بیچنے والے، سگنلوں پر غبارے، کھلونے، رومال نما تولیے، قلم بیچنے والے، وائپر سے آپ کی کار کی صفائی کے بہانے آپ کے سامنے دست طلب دراز کرنے والے، آپ کو دعائیں دینے والے۔ لاک ڈائون میں وہ کہاں جائیں گے؟ تفریح گاہوں پر گول گپے، مکئی کے بھٹے، دہی بڑے اور پاپ کارن بیچنے والے، اونٹ اور گھوڑے پر سواری کرا نے والے، تصویریں کھینچے والے، بازاروں میں چائے، قہوہ اور شربت بیچنے والے، کسی کو کچھ احساس ہے آج کل وہ کہاں سے کھا رہے ہوں گے، کیسے زندہ ہوں گے۔ اسکولوں کے سامنے مکئی کے دانے، ٹافی بسکٹ اور دوسری چیزیں بیچنے والے، ہر چند قدم کے فاصلے پر موجود فرنچ فرائز بیچنے والے، جوتے گانٹھنے، پالش کرنے، اسکول بیگ مرمت کرنے والے موچی، گاڑیاں دھونے والے مزدور جن کی روزی آپ کی جیب سے نکلنے والی اس قلیل رقم سے وابستہ ہوتی ہے جس کا خرچ آپ کو کچھ بوجھ بھی محسوس نہیں ہوتا لاک ڈائون کی صورت میں وہ کہاں جائیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں شیخ سعدی کے پہلے مصرع میں جن کی خدمت پر زور دیا گیا ہے جو اہل خیر کے منتظر ہیں۔ وہ اہل خیر جن کی خرچ کی گئی دولت کا تھوڑا سا حصہ انہیں اللہ کے کنبے، اس کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے والا بنادے گا۔ یہی وہ لوگ ہوں گے جو جب تک اللہ کی مخلوق کی مدد میں لگے رہیں گے اللہ ان کی مدد میں لگا رہے گا۔ یہی وہ لوگ ہوں گے جب اللہ ان سے پوچھے گا کیا تم نے میری عیادت کی، مجھے کھانا کھلایا، مجھے پانی پلایا، تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔ جو لوگ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھائیں گے وہی قابل تعظیم اور انسانیت کے محسن ہوں گے۔