گلوبل ویلج۔ گلوبل وبا

417

قدرتی آفات اور وبائیں پہلے بھی کرئہ ارض پر آتی رہی ہیں لیکن ہوتا یہ تھا کہ کوئی قدرتی آفت مثلاً سیلاب، آندھی، طوفان، بارش یا سیلاب آتا تو وہ زمین کے کسی خاص حصے تک محدود رہتا اور باقی دنیا کا کارخانہ معمول کے مطابق چلتا رہتا تھا۔ اسی طرح وبائیں مثلاً طاعون، ملیریا، فلو اور دیگر بیماریاں زمین پر یلغار کرتیں تو ان کا دائرہ بھی محدود ہوتا۔ وہ کسی خاص علاقے کو ہدف بناتی اور تباہی پھیلا کر معدوم ہوجاتی تھیں۔ اس طرح زمین پر زندگی کی رونق بحال رہتی تھی۔ انسانی تاریخ میں صرف ایک واقعہ ایسا ملتا ہے جس میں کرئہ ارض پر آباد وہ تمام انسان ہلاک ہوگئے تھے جو خدا کے باغی اور نافرمان تھے اور صرف وہی لوگ باقی بچے تھے جو خدا کو ماننے والے، اطاعت گزار اور فرمانبردار تھے۔ یہ واقعہ طوفانِ نوحؑ سے منسوب ہے۔ جب انسانی آبادی بہت محدود تھی اور سیدنا نوحؑ اس آبادی میں اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وہ اس آبادی میں ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے، انہیں نیکی اور بھلائی کی تلقین کرتے رہے لیکن چند لوگوں کے سوا کسی نے ان کی بات مان کر نہ دی۔ آخر انہوں نے عاجز ہو کر اللہ سے دعا کی کہ وہ اب فیصلہ فرمادے۔ چناںچہ ربّ کائنات نے فیصلہ فرما دیا۔ سیدنا نوحؑ کو حکم ہوا کہ وہ ایک کشتی بنائیں اور اس میں اپنے اہل خاندان کے ہمراہ اطاعت گزار بندوں کو سوار کرلیں جب یہ عمل مکمل ہوگیا تو اللہ کے حکم سے زمین بھی پانی اُگلنے لگی اور آسمان بھی پانی برسانے لگا اور پانی کے اس طوفان میں وہ سب لوگ غرق ہوگئے جنہوں نے خدا سے بغاوت کو اپنا وتیرہ بنا رکھا تھا۔
اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ پوری دنیا میں جو لوگ آباد ہیں وہ کشتی نوحؑ میں بچ جانے والے انسانوں کی اولاد ہیں جو ہزارہا سال کے تسلسل سے نسل در نسل قبیلوں اور قوموں میں تبدیل ہوتے گئے پھر زمین پر جغرافیائی تقسیم سے ملک وجود میں آگئے اور قومیں ان ملکوں سے پہچانی جانے لگیں۔ اِس وقت زمین کا کونا کونا آباد ہے اور کرئہ ارض پر پھیلے ہوئے سیکڑوں ممالک میں آباد قومیں اپنا تشخص منوارہی ہیں۔ طوفان نوحؑ کے بعد معلوم انسانی تاریخ میں کوئی قدرتی آفت یا وبا ایسی نہیں آئی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو اور زمین پر بسنے والے سارے انسان اس سے متاثر ہوئے ہوں۔ کورونا وائرس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس نے یہ کام کر دکھایا ہے۔ ایک حقیر جرثومے نے جسے انسانی آنکھ دیکھ بھی نہیں سکتی دنیا بھر کی قوموں کو خواہ وہ امیر ہیں یا غریب، ترقی یافتہ ہیں یا پسماندہ پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ جدید ترقی کے اس دور میں پوری دنیا کو ایک گلوبل ویلج کہا جارہا تھا چناںچہ قدرت نے جو وبا بھیجی ہے وہ بھی گلوبل ہے اس نے تمام جغرافیائی حدیں مسمار کردی ہیں۔ امریکا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ملک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں کبھی کوئی جنگ نہیں لڑی گئی، کوئی دشمن اس پر حملہ آور نہیں ہوا، جب کہ وہ خود اپنی سپر ٹیکنالوجی اور جدید ترین جنگی مشینری کے ذریعے پوری دنیا پر حملے کررہا ہے، اس نے بہت سے ملکوں میں فوجی اڈے بنا رکھے ہیں اور ہزاروں میل دور بیٹھ کر ان ملکوں کو کنٹرول کر رکھا ہے لیکن کورونا وائرس نے امریکا کو بھی فتح کرلیا ہے اور عالمی ادارئہ صحت نے پیش گوئی کی ہے کہ چین اور اٹلی کے بعد سب سے زیادہ تباہی امریکا میں مچے گی۔
آئیے اب پاکستان کا ذکر کرتے ہیں۔ پاکستان بھی اس وقت کورونا وائرس کی زد میں ہے۔ وائرس کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے، اس وبا سے بچنے کے لیے پورے ملک میں لاک ڈائون ہے، تمام سرکاری و نجی دفاتر اور کاروباری سرگرمیاں بند کردی گئی ہیں، ٹرینیں روک دی گئی ہیں، پروازیں معطل ہیں، مساجد کھلی ہیں، لیکن تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے اتفاق رائے سے پچاس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو مساجد میں آنے سے
روک دیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ گھروں میں نماز ادا کریں۔ آئمہ کرام سے کہا گیا ہے کہ وہ مختصر نماز پڑھائیں، نمازی صف بندی کرتے وقت درمیان میں فاصلہ رکھیں اور فرض ادا کرنے کے فوراً بعد گھروں کو واپس چلے جائیں، باقی نماز گھروں میں ادا کریں، تعلیمی ادارے تو لاک ڈائون سے پہلے ہی بند کردیے گئے تھے، لوگوں سے بار بار کہا جارہا ہے کہ وہ خود کو گھروں تک محدود رکھیں، پبلک مقامات پر نہ جائیں اور کسی قسم کی تقریب میں حصہ نہ لیں۔ حتیٰ کہ لوگوں کو جنازے میں شرکت سے بھی منع کردیا گیا ہے، شادی کی تقریبات بھی روک دی گئی ہیں، شادی ہال بند کردیے گئے ہیں، سینما گھروں پر تالے لگادیے گئے ہیں، لوگ ایک دوسرے سے مصافحہ نہیں کرسکتے، بغل گیر نہیں ہوسکتے، بس دور سے سلام کرسکتے ہیں۔ یہ ساری احتیاطی تدابیر اس لیے ہیں کہ یہ وائرس ملنے جلنے سے پھیل رہا ہے، پاکستان میں اس کے پھیلائو کی واحد وجہ یہ ہے کہ جو لوگ بیرون ملک سے وائرس لے کر آئے، وہ آزادانہ دوسروں سے ملتے جلتے رہے اور حکومت کی انتظامی مشینری انہیں باز رکھنے میں ناکام رہی۔ اب اگرچہ سختی کی گئی ہے اور بڑے شہروں میں فوج بھی نقل و حرکت کو کنٹرول کررہی ہے لیکن اب بھی کچھ من چلے ایسے ہیں جو موقع ملتے ہی ساحل سمندر پر پہنچ جاتے ہیں، پارکوں اور دیگر پبلک مقامات پر جا دھمکتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اَن دیکھے دشمن سے خوف کھانے کو تیار نہیں ہیں۔ ہر شر میں خیر چھپا ہوتا ہے، کورونا وائرس میں بھی خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس نے قوم کو جو منتشر اور بکھری ہوئی تھی، متحدہ کردیا ہے، سیاست میں بھی دھماچوکڑی ختم ہوگئی ہے، تمام اپوزیشن لیڈروں نے اس ابتلا میں حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ محترم سراج الحق نے جماعت اسلامی اور اس کے فلاحی ادارے الخدمت فائونڈیشن کی خدمات حکومت کے سپرد کردی ہیں اور اپنے تمام اسپتال اور مراکز صحت کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے وقف کردیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائد بلاول زرداری نے وزیراعظم عمران خان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے آپ ہمارے وزیراعظم ہیں ہم آپ کی قیادت میں کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں شہباز شریف جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ پاکستان نہیں آئیں گے، کورونا وائرس پھیلتے ہی پاکستان واپس آگئے ہیں اور حکومت کو غیر مشروط تعاون کا یقین دلایا ہے۔ انہوں نے شریف فیملی کے اسپتال وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کردیے ہیں۔ حکومت کے سب سے بڑے مخالف مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنی خدمات حکومت کو پیش کردی ہیں اور کہا ہے کہ جمعیت کی فلاحی تنظیم انصار الاسلام کے چالیس ہزار کارکن حکومت کی امدادی ٹیموں کے ساتھ بلا معاوضہ کام کرنے کو تیار ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف سیاسی تعصب سے پیچھا نہیں چھڑا سکے، اس کا مظاہرہ انہوں نے اس ویڈیو کانفرنس میں کیا جو کورونا وائرس کے مسئلے پر اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ ہوئی تھی، وہ کانفرنس سے کچھ بتائے بغیر اُٹھ کر چلے گئے۔