حکومت کا ریلیف پیکیج عام آدمی تک پہنچے کیسے؟؟

613

کورونا وائرس سے بچائو کی احتیاطی تدابیر کے باعث ملک بھر میں جاری لاک ڈاون میں غریبوں اور دہاڑی دار مزدوروں کی امداد کے لیے وفاقی حکومت کے 880 ارب کا امدادی پیکیج جس میں پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں 15 روپے فی لیٹر کمی جبکہ مزدوروں کے لیے 200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق مشکلات کا شکار ہر خاندان کو 4 ماہ تک 3 ہزار روپے ماہانہ، 300 یونٹ تک گیس اور بجلی کے بل کی 3ماہ تک اقساط میں وصولی شامل ہے۔ اس اعلان کے بعد سندھ حکومت نے بھی یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں اور غریبوں کو راشن کی فراہمی کے لیے 580 ملین روپے جاری کردیے۔
سندھ حکومت یا وزیر اعظم کا روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے جس تین ہزار امداد کا چار ماہ تک کا وعدہ کیا گیا ہے اس کے کم اور زیادہ ہونے کی بحث میں جائے بغیر ان تمام امدادی پیکیجز کو صحیح مستحقین تک پہنچانے کی حکمت عملی پر اظہار خیال ضروری ہے کیونکہ اگر اس کی تقسیم کا ٹھیک طریقہ کار مرتب نہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ ان پیکیجز سے ایک بار پھر مستحقین کے بجائے بے نظیر انکم سپورٹ اور اس طرح کے دیگر پروگراموں کی طرح ان پر مامور اداروں کا عملہ سرکاری ملازمین حکومتی پارٹی کے نورِ نظر افراد کارکنان ووٹرز سپورٹرز استفادہ کر سکیں گے جبکہ غریب طبقہ ہمیشہ کی طرح محروم رہے گا۔ وزیر اعظم کے مطابق اس وباء کے پھیلائو کو روکنے کے لیے اگر خدانخواستہ کرفیو لگانا پڑا تو اس سے قبل انتظامیہ کے ساتھ مل کر رضاکاروں کی فورس بنانا پڑے گی اور اس فورس کے ذریعے غریبوں کو کھانا گھروں پر پہنچانا پڑے گا اس فورس کی تشکیل پر بھی ہمارے وہی خدشات ہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا اگرچہ ملک کی بے شمار سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں نے وزیر اعظم کو اپنے ہر طرح کے تعاون کی پیشکش کر دی ہے جن میں کچھ ایسی بھی ہیں جن کی امانت اور دیانتداری پر کسی کو رتی برابر بھی شبہ نہیں مگر پھر بھی ان کاموں میں شفافیت برقرار رکھنے کی غرض سے ملک کے مقتدر اداروں ہی کا سہارا لینا پرے گا۔ جن میں افواج پاکستان، نادرا، الیکشن کمیشن یا ملک میں موجود مردم شماری و خانہ شماری اور کچی آبادی کے اعداد وشمار مرتب کرنے والے ادارے شامل ہیں تاکہ آئندہ کے لیے بھی کسی ایسی ممکنہ صورتحال سے نبٹنے کے لیے ہماری تیاری رہے۔ میرے اپنے اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں کوئی ایک ایسا ادارہ نہیں جو یہ بتا سکے کہ تین ہزار امداد کے مستحقین کون ہیں؟ اور کہاں رہتے بستے ہیں؟ زلزلہ، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے نبٹنے کے لیے ہمارے ملک میں موجود نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی NDMA بھی اس سلسلے میں ہماری رہنمائی اس لیے نہیں کرسکتی کہ ان کے پاس بھی ایسے اعداد وشمار موجود نہیں، ان کی پہنچ اور ان کا دائرہ کار بھی صرف متاثرہ علاقوں کے متاثرین تک محدود ہے جو بالکل نمایاں ہوتے ہیں مثلاً کسی مخصوص علاقے میں زلزلہ یا سیلاب کی تباہ کاریاں۔ موجودہ یا مستقبل قریب میں آنے والی حکومت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چونکہ کورونا وائرس کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات اور لاک ڈوان کے متاثرین کا معاملہ فوری نوعیت کا ہے اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ہنگامی طور پر کوئی ایسا طریقہ کار وضح کرے جو صحیح مستحق تک پہنچنے میں معاون ہو جیسا کی تحریر کیا گیا ملک میں موجود کسی ادارے کے پاس کوئی ایسے اعداد وشمار سرے سے موجود ہی نہیں لہٰذا میری ناقص رائے میں ملک میں صرف دو ہی ادارے ایسے ہیں جن کے ذریعے ہم مستحقین تک پہنچ سکتے ہیں جو عوام کو گیس و بجلی فراہم کرتے ہیں اور جن کی گرفت ملک کے طول و عرض میں ہر کونے تک موجود ہے اور وزیر اعظم نے بھی انہی اداروں سے گزارش کی ہیکہ وہ عوام الناس کے واجبات کو تین اقساط میں وصول کریں اول تو ریلیف کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ تین اقساط کے بجائے ان صارفین کو جو تین سو یونٹ سے کم بجلی اور دو ہزار سے کم گیس استعمال کرتے ہیں کہ تین ماہ کے واجبات گزشتہ چھ ماہ کی اوسط کی بنیاد پر معاف کردیے جاتے۔ میری دانست میں اب بھی انہی دونوں ادروں کے بلز ہی ان مستحقین تک پہنچنے کا واحد اور فوری ذریعہ ہیں ان اداروں کو ذمے داری دی جائے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ان صارفین کا ڈیٹا جو ان کے پاس موجود ہے اور جو ہر ماہ کے بل میں درج ہوتا ہے وہ وزارت خزانہ کو دے دیں یا پھر وزارت خزانہ ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے یہ اعلان کر دے کہ بجلی و گیس استعمال کرنے والے وہ صارفین جو مندرجہ بالا معیار پر پورے اُترتے ہیں ہر ماہ اپنے قریبی ڈاکخانوں یا بینکوں سے اپنی امدادی رقم وصول کرلیں اور بینک و ڈاکخانے ان صارفین کے قومی شناختی کارڈ کے ذریعے ایسا فول پروف نظام مرتب کریں جن میں دھوکا دہی اور ڈوپلی کیشن کا عنصر صفر ہو جو ناممکن نہیں۔ آج بھی نادرا کے جاری کردہ کارڈ نمبروں کے ذریعے لوگوں کی خفیہ معلومات تک سرکار کو ہرطرح کی رسائی حاصل ہے اس میں چند قباحتیں پھر بھی موجود ہیں یعنی وہ افراد اور ملک کی دیہی آبادیاں جہاں نہ گیس ہے اور نہ ہی بجلی وہ کیا کریں یا وہ کرایہ دار جن کے بل ان کے مالکان کے ساتھ مشترکہ ہیں ان کا کیا ہوگا؟ اس ضمن میں بلدیاتی ادارے ضلع و تحصیل کونسل کے منتخب چیئرمین وائس چیرمین اور وارڈ کونسلر کی سفارش اور تصدیق کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
دوم مٹی کا تیل، ڈیزل و پٹرول کی قیمتوں کی کمی کا حکومتی اعلان بھی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا سارہ فائدہ حکومت نے اپنے لیے جبکہ رائی کا ایک دانہ عام افراد کے لیے مختص کیا ہے تھوری دیر کے لیے حکومت کی یہ بات بھی مان لی جائے کہ اس نے یہ قدم ملک کے وسیع مفاد میں ملکی معیشت کو سہارا دینے کی غرض سے بادل نخواستہ کیا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ 15 روپے فی لیٹر کی کمی پھر عام آدمی کی مدد ہرگز نہیں اس سے تو سب ہی فیضیاب ہوںگے چاہے وہ عام ہوں یا خاص۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ مٹی کے تیل پٹرول اور ڈیزل کی تین مختلف قیمتیں مقرر کرے، موٹر سائیکل سوار رکشہ ٹیکسی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ایک نرخ 600 سی سی سے لیکر 1000 سی سی تک کی گاڑیوں کے علٰیحدہ نرخ جبکہ 1000 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے لیے تیسرا نرخ مقرر کیا جائے شفافیت قائم رکھنے کے لیے ان کا ماہانہ کوٹا بھی مقرر کیا جا سکتا ہے اور ہر گرتی اور بڑھتی قیمتوں کی بنیاد پر پبلک ٹرانسپورٹ کے فی کلو میٹر کرایہ مقرر کرنا حکومتی کسی ادارے چاہے اوگرا ہی کیوں نہ ہو کے سپرد ہوں۔
کالم کے آخر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متضاد بیانات اور فیصلوں کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ کورونا وائرس کے سلسلے میں ہفتوں اور عشروں کے لاک ڈاون کے بعد بھی اس موذی وباء پر خدانخوستہ اگر قابو نہ پایا جا سکا تو پھر ہماری حکمت عملی کیا ہوگی جو وباء کے پھیلائو اور متاثرین کی تعداد میں روزانہ کے اضافے سے آپ ظاہر ہیں لہٰذا حکومتی تمام اقدامات اور فیصلوں کا نفاذ انتہائی سوچ بچار اور بہترین منصوبہ بندی کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے نہ کہ جلد بازی اور افراتفری کی صورت میں دنیا بھر کی مجموعی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس گمبھیر وباء سے بچنا ہفتوں عشروں میں ممکن نہیں توبہ استغفار کی کثرت کے ساتھ ضرورت سے زیادہ احتیاط اس کا لازمی تقاضا ہے۔