ایک تاریخی مشاعرہ

299

صدر ایوب خان کا دور تھا. حیدرآباد سندھ میں سالانہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرے کی صدارت وزیر خزانہ شعیب مرحوم کررہے تھے۔ مشاعرے میں فیض احمد فیض اور قابل اجمیری بھی شریک تھے۔

فیض احمد فیض حال ہی میں قیدوبند سے رہا ہوکر آئے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر پڑھا،

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال و متاع کی پوچھتے ہو

جو عمر میں ہم نے بھر پایا وہ سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشت خاک جگر ساغر میں ہے اور خون حسرت مے

لو دامن ہم نے جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں

قابل اجمیری ایک نوجوان شاعر تھے۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا تھے، کہا،

کسی کی زلف پریشاں کسی کا دامن چاک

جنوں کو لوگ تماشا بنائے پھرتے ہیں

خبر کسی کو ہے یارو کہ دشت غربت میں

ہم آپ اپنا جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں

سرکار نے 150 روپے ماہوار ان کا وظیفہ مقرر کردیا مگر رقم اُن کے پاس تب پہنچی جب اُن کا جنازہ جارہا تھا۔