کورونا کے قہر میں سسکتی انسانیت۔!

1084

غازی سہیل خان سرینگر کشمیر
ایسا لگ رہا ہے کہ شام کے اُس بچے کی شکایت اللہ تعالیٰ نے سُن لی ہے۔ گزشتہ برس ایک ویڈیو میں ایک بچہ اغیار کے مظالم سے تنگ آکر خالق حقیقی سے ملنے سے پہلے کہہ رہا تھا کہ ’میں اللہ کے پاس جا کر سب کچھ بتائوں گا۔ آج دنیا کورونا وائرس نامی وبائی بیماری کی وجہ سے غم ناک مناظر پیش کر رہی ہے اٹلی سے ایک ویڈیو سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر گشت کر رہی ہے جس میں اس مہلک وبائی بیماری کی وجہ سے ہزاروں افراد کی موت واقع ہونے کے بعد ان کے لیے بڑی بڑی قبریں کھود کر اُن لاشوں کو ایسے اُن میں ڈالا جا رہا ہے جیسے کچرے کا ٹرک کچرا کسی گڑھے میں ڈال رہا ہو۔ ان روح فرسا حالات میں مشینوں کے ذریعے لاشوں کو دفن کرنا بھی ہماری آنکھوں نے دیکھ لیا، والدین کو اپنے بچوں کو گلے لگانے کے لیے تڑپنا اور ترسنا پڑ رہا ہے، بیٹا اپنے باپ کی لاش کو ہاتھ نہیں لگا سکتا، دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں جن کے پاس ایٹم اور نیوکلیر بموں کے خزانے ہیں، بے یار ومدد گار ہوگئی ہیں۔ بڑی بڑی عالمی طاقتوں کے بادشاہ یتیم بچوں کی طرح بلک رہے ہیں، دنیا کا بہترین طبعی نظام ناکارہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پُر رونق بازار، ہنستے اور کھلتے گھر، دفتر اور اسکول ویرانی کا کربناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ غریب اور محتاج عوام اب زندگی کے بجائے موت کو ترجیح دے رہے ہیں، مسجد، مندر اور دیگر عبادت گاہوں میں ویرانیاں چھائی ہوئی ہیں۔ یہ دنیا میں کیا ہونے لگا ہے کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اُس شامی بچے کی فریاد اللہ نے سُن لی ہے، کشمیر کی آصفہ کے درد انگیز نالے اللہ تعالیٰ کے واحد القہار ہونے کی وجہ بنتی جا رہی ہے، یمن کے بچوں کی آہیں اور سسکیاں بھی عرش معلی پر جا پہنچی ہیں، شام و عراق کے شاداب شہروں کی تباہی اور جلتی لاشوں کے قاتلوں کو اللہ اپنی قہاری کی جھلک
دکھانے لگا ہے، کشمیر میں کنن پوشپورہ اور شوپیاں میں بہنوں کی عصمتیں لٹنے کی چیخیں انسانیت کی روح کو بے قرار کرنے لگی ہیں۔ معصوم ہبا نثار اور انشاء مشتاق کی محتاجی کا حساب رب ذوالجلال لینے لگا ہے۔ فلسطین میں بن کھلے ہی کلیوں کا مرجھا دینے کی قیمت بھی اب دنیا چُکانے لگی ہے، برما اور چیچنیا کے مسلمانوں کی لاشوں کے چیتھڑے اُڑانے کا حساب اللہ دنیا سے مانگنے لگا ہے۔ دہلی، گجرات اور یوپی کے معصوم انسانوں کے قتل عام کے دوران وہ دل دوز صدائیں اب عرش ہلا رہی ہیں۔ ان سارے مظالم پر دنیائے انسانیت خاموش تماشائی بنی رہی وہ ان درد انگیز مظالم کو سہتی رہی، شراب و کباب میں مست ساز و سرود میں مگن رہی، لیکن اللہ خالق و مالک جس کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند، جس کے قبضے میں ساری دنیا ہے جو بے بسوں، بے کسوں، مظلوموں، بچوں، بزرگوں اور خواتین پر ہو رہے مظالم کا حساب رکھتا رہا۔ دنیا کے جھوٹے خدائوں کو یہ گمان بھی نہیں ہوا ہوگا کہ ہم اس خالق برحق سے بچ نہیں سکتے۔ شاید دنیا کے فرعونوں اور نمرودوں کو اس کا قطعی اندازہ نہیں ہوا ہوگا کہ کوئی واحد القہار ہمیں فنا بھی کر سکتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اس نہ دکھنے والے وائرس نے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو کلین بولڈ کر دیا ہے۔
دنیا میں ہر کسی نے بس انسانیت کو تباہ کرنے کا سامان فراہم کیا انسانیت فناہ ہوگئی ہر طرف سے ظالم اور جابر حکمران انسانیت پر ظلم کا ہر ایک حربہ آزما رہے ہیں۔ ہر ایک کو بس انسانیت کی بربادی کے لیے ہتھیاروں کی جیسے لت لگی ہو دنیا کے بڑے بڑے ممالک ہتھیاروں کے ذخیرے جمع کر رہے ہیں۔ جب دنیا میں اس سوچ کے حکمران مسلط ہوتے ہیں اور انسانیت گمراہ ہوتی ہے تو اللہ مختلف قسم کے عذابوں میں جھکڑ لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ احزاب میں فرماتے ہیں ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رُسول کو ایذاء دیتے ہیں اُن پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور اُن کے لیے نہایت رُسوا کن عذاب ہے‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں اس وبائی بیماری کے متعلق کسی نے انتباہ نہ کیا ہو میں پہلے بھی بتا چُکا ہوں کہ جب ظلم و جبر کا دور انسانیت پر چلنا شروع ہو جاتا ہے تو اللہ کا عذاب نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے ایک معروف صحافی حامد میر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ: ’’ایک امریکی جریدے ’’کلینیکل مائیکروبا ئیولوجی ریویو‘‘ کے 11؍کتوبر 2002ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون میں 13سال قبل پانچ سائنسدانوں نے دنیا کو کورونا وائرس کے بارے میں خبردار کیا ہے‘‘۔ یہ جریدہ امریکن سوسائٹی فار مائیکرو بائیولوجی کے زیر اہتمام شائع ہوتا ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ ’’کچھ سال کے بعد امریکن تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے 2012ء میں ایک رپورٹ شائع کی اور بتایا کہ مستقبل میں امریکا کے لیے بڑا خطرہ دہشت گردی نہیں بلکہ ایک عالمی وبا بنے گی جو امریکی معاشرے کے پورے طرز زندگی کو بدل کر رکھ دے گا لہٰذا اس
طرف توجہ کریں‘‘۔ لیکن اس کے باوجود بھی امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک نے انسانیت کے بچائو کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا بلکہ اب یوں کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں حکمرانوں کی نااہلی اب تاریخ کا ایک بدترین حصہ بنتی جا رہی ہے۔ جہاں مورخ اس دور کا ذکر کرتے ہوئے شام اور یمن کی جنگ کا ذکر کریں گے وہیں افغانستان کی جنگ میں امریکا اور طالبان کا امن معاہدہ بھی تاریخ کے اوراق سیاہ کرے گا اور کورونا وائرس بھی تاریخ کے اہم ابواب میں شامل ہو جائے گا جس میں یہ ضرور لکھا جائے گا کہ کورونا کی وبا سے لڑنے کے لیے دنیا کی بڑی بڑی عالمی طاقتوں کو شعبہ طب میں ویلنٹی لیٹرز (ventilators) کی کمی پڑ گئی جس کے سبب انسانیت سسک سسک کر موت کے گھاٹ اُتر گئی۔
مضمون کی طوالت کے خوف کے سبب میں بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں رجوع الی اللہ میں دیر نہیں کرنی چاہیے، ہمیں اپنے اجتماعی گناہوں کی توبہ کی سبیل کرنی چاہیے اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کے ساتھ سماج میں مجبوروں، لاچاروں، مسکینوں اور درد مندوں کے جینے کا سہارا بننا چاہیے۔ ابھی اللہ مہلت دے رہا ہے بلکہ قرآن حکیم کی سورہ فاطر میں اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر اُن کے اعمال کے سبب سخت گیری فرمانے لگتا تو روئے زمیں پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن اللہ تعالیٰ اُن کو میعاد معین تک مہلت دے رہا ہے سو جب اُن کی میعاد آپہنچے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دکھ لے گا‘‘۔ اس مشکل کی گھڑی میں ہمیں مجموعی طور انسانیت کو بچانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنی ہوںگی، نہیں تو تاریخ دان لکھے گا کہ ایک صدی ایسی بھی دنیا میں گُزری ہے جس میں دنیا میں بیمار لوگوں کے لیے ویلنٹی لیٹر کی کمی کے سبب فلانی قوم فنا ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کھائے۔ آمین۔