معاشی چیلنج کیلئے تیار ہیں؟ تیسرا پہلو

408

سالار سلیمان
کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ، وہی اُس نے دنیا بھر کی معیشت کا بھرکس نکا ل دیا ہے ۔ اِس وقت صرف اور صرف میڈیکل یا اُس سے وابستہ انڈسٹری ہی چل رہی ہے ۔ تا دم تحریر سات لاکھ سے زائد افراد دنیا بھر میں کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔پاکستان میں اس وقت 1500 سے زائد کورونا وائرس کے تصدیق یافتہ کیس سامنے آ چکے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ٹھاک خطرے کی ہے کہ پاکستان میں صحتیابی کی شرح 50 فیصد ہے ۔ہمیں اب بطور فرد لاک ڈاؤن کا احترام کرنا ہے تاہم اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی معیشت بیٹھنے کا خطرہ اپنی جگہ ہے ۔ بلکہ، اگر میں حقیقت پسندی کا سامنا کروں تو پاکستان کی معیشت تقریباً بیٹھ چکی ہے اور شاید صورتحال مزید خراب ہو جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی اس حوالے سے بالکل کوئی تیاری نہیں تھی، کورونا جب ہمارے ہمسایے ملک میں سامنے آیا تھا تو اُس وقت ہی ہمیں ریسرچ کے میدان میں نکل
جانا چاہئے تھا لیکن سائنس کے وزیر اُس وقت اس سوچ میں تھے کہ کس صحافی کے منہ پر اگلا تھپڑ مارنا ہے اور کیسے ٹوئیٹر کے میدان کو فتح کرنا ہے ، لہذا ہم نے وہ وقت گنوا دیا۔ پاکستان میں پہلا مریض بہت بعد میں سامنے آیا ، لیکن اس کے باوجود بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لئے ۔ جہاں وفاق لاک ڈاؤن کے حق میں نہ ہو اور صوبے لاک ڈاؤن کر لیں تو وہاں معاشی سنجیدگی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ لاک ڈاؤن ناگزیر تھا، ہو گیا، لیکن غیر یقینی صورتحال نے اسٹاک مارکیٹ سمیت تمام منڈیوں کا ستیا ناس بھی کیا۔
ملکی معیشت کے ساتھ اس وقت بھی عجیب سا مذاق جاری ہے ۔ آئی ایم ایف کے دباؤ اور اُس کے ایجنٹوں کی وجہ سے ہم نے شرح سود میں زیادہ کمی نہیں کی ہے ۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ شرح سود میں اگر زیادہ کمی کرتے ہیں تو ساری پورٹ فولیو انوسٹمنٹ سسٹم سے نکل جائے گی،پورٹ فولیو انوسٹمنٹ اگر نکل جاتی ہے تو ملک میں ڈالر کی کمی ہوگی اور ڈالر پھر سے اوپر جانا شروع ہو جائے گا۔ دوسری جانب ڈالر کی پارکنگ کا عجیب سا جوا ء چلا یا ہوا ہے کہ دنیا کے کسی خطے سے کم شرح سود پر ڈالر خرید کر ضمانت کے ساتھ پاکستان میں بلند شرح سود پر پارک کیاجائے اور حاصل فرق سے ہی گھر بیٹھ کر منافع کمایا جائے ۔ ایسے تو ملک کی معیشت بالکل ہی فارغ ہو جائے گی، اور ہو بھی رہی ہے ، ہمارے پلے کچھ رہے گا ہی نہیں تو پھر کیا خریدیں گے اور کیا بیچیں گے۔ یہ پورٹ فولیو انوسٹمنٹ صرف بینک میں ہوتی ہے ، اس سے فارن ریزرو
بڑھ جاتے ہیں۔ اب جو اس وقت جو ڈالر بڑھ رہاہے ، اُس وجہ بھی یہی ہے کہ پاکستان نے اندرونی دباؤ کی وجہ سے شر ح سود میں معمولی سی کمی کی ہے ۔ اس کمی کی وجہ سے محتاط اندازے کے مطابق تقریباً پونے دو سے دو ارب ڈالر سسٹم سے نکل گیا ہے ۔ شرح سود میں کمی کے حوالے سے معیشت دان یہ کہ رہے ہیں کہ پاکستان اگر اچھی طرح سے صورتحال کو پڑھتا ہے تو شرح سود کو بتدریج کم کرتے ہوئے ۴ سے ۵ فیصد تک لانا ممکن ہے ۔بیرون ملک تجارت عملاً رُکی ہوئی ہے اور جب مارکیٹس عملا ً کھلیں گی تو اس وقت تیاری کے ساتھ صورتحال کا سامنا کرنا ممکن ہے ۔ اب جبکہ عالمی منڈیاں خود مندی کا شکار ہیں تو پاکستان کو چاہئے کہ شرح سود میں بتدریج کمی کرے ، اس سے اگر ڈالر کی قیمت بڑھتی بھی ہے تو اور کوئی حل بھی نہیں لیکن شرح سود کو بتدریج کم کرتے ہوئے ۴ سے ۵ فیصد پر لاک کر دے کہ طویل المدتی معاشی منصوبہ بندی میں اس کا فائدہ ہوگا۔
پاکستان کی منڈیاں زرخیز منڈیاں شمار ہوتی ہیں، بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن اس حکومت کی معاشی جادوگری کی وجہ سے ہچکچاتا بھی ہے ۔ لہذا اگر پاکستان سے نمائشی پورٹ فولیو انوسٹمنٹ نکل بھی جاتی ہے تو کوئی بات نہیں بلکہ مزید ایک قدم آگے جا کر آئی ایم ایف سے یا تو دوبارہ مذاکرات کئے جا سکتے ہیں اور یا پھر موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس کو گڈ بائے کہا جا سکتا ہے ۔ اس کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ پروفیسر خورشید اور ڈاکٹر امجد ثاقب کو بلا کر بٹھا لیں، یہ دونوں آپ کو بہترین پلاننگ دے دیں گے ، لیکن کم از کم پورٹ فولیو انوسٹمنٹ کی بلیک میلنگ سے باہر آنا ضروری ہے ۔
ڈالر کے مہنگا ہونے سے دو بڑے ایشو ہونگے ، ایک تو امپورٹس مہنگی ہو جائیں گی، اس سے ملک میں مہنگائی بڑھے گی، لیکن مندی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو پلاننگ سے کنٹرول کرنا ممکن ہوتا ہے اور دوسرا مسئلہ ہمارا بیلنس آف پے منٹ ہے ۔ یہ اگر چہ سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن قابل حل ہے ۔ یہ اچھی خبر ہے کہ آئی ایم ایف نے اس وقت قرض کی ادائیگی کو ملتوی کر دیا ہے ۔ دوسری جانب حکومت بھی ملکی بینکوں سے یہی درخواست کر رہی ہے کہ فی الحال قرضوں کی ادائیگیاں روک دیں اور اِ ن کو ری شیڈول کر دیں کیونکہ دنیا بھر میں امپورٹس ایکسپورٹس رُکی ہوئی ہیں، سپلائی لائنز بند ہیں، پراپرٹی ڈویلپمنٹ بند ہے ، سیلز ختم ہو چکی ہیں، ریٹیل کا بزنس بھی مندی بھی جاتا جا رہا ہے تو کیسے ادائیگیاں ممکن ہونگی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر اپریل کے وسط یا آخر میں بھی لاک ڈاؤن ختم ہوتا ہے تو دنیا کی یہ بگڑی معاشی صورتحال ۱۸ ماہ میں مستحکم ہو گی ۔ لیکن کیا پاکستان اس صورتحال سے کچھ فائدہ لے سکتا ہے ؟ میرا خیال ہے کہ نہیں، ملک میں مہنگائی کا سیلاب بھی آئے گا، غریب مزید غریب ہوگا، عوام کی چیخیں بھی نکلیں گی اور معیشت کا جنازہ بھی ٹھیک سے نکلے گا۔کیوں؟ کیونکہ جو معاشی جادوگر اِس وقت موجود ہیں، یہ کرائے پر لائے گئے ہیں، یہ ملک کے نہیں بلکہ اپنے اداروں کے خیر خواہ ہیں، یہ شوکت عزیز والا کام کریں گے اور بعد میں اپنا بریف کیس اُٹھا کر چلے جائیں گے۔