کیا کورونا طاقت کا بے رحم کھیل ہے؟

638

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب اور سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر حسین ہارون کی ایک وڈیو کلپ میڈیا میں گردش کررہی ہے۔ جس میں انہوں نے پوری ذمے داری اور تحقیق کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ کورونا امریکا کا بائیولوجیکل ہتھیار تھا جسے لیبارٹری میں ایک مخصوص مقصد کے لیے تیار کیا گیا۔ حسین ہارون ایک ذمے دار شخصیت اور ملک کے معروف کاروباری اور اخباری صنعت سے وابستہ گھرانے کے فرد ہیں۔ وہ ایک متوازن اور معتدل شخصیت کی پہچان رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی وڈیو خاصی چشم کشا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی برطانوی لیبارٹری میں تیاری ایک بہت بڑی سازش کا حصہ تھا۔ اس کا مقصد لوگوں کو کیمیکل وار فیئر کے طور پر خوفزدہ کرنا تھا۔ حسین ہارون کے مطابق 2006 میں امریکا کی کمپنی کائرون نے اس وائرس کی تیاری حقوق حکومت امریکا سے حاصل کیے۔ پھر اس کی ویکسین کے حقوق یورپ سے خریدے گئے۔ حسین ہارون نے وائرس اور ویکسین کے پیٹنٹ نمبرز کے حوالے بھی دیے ہیں۔ ان کے مطابق اس وائرس کی دوائی اسرائیل میں بننا شروع ہوگئی ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے جو ہمیں تسلیم کرتے ہیں ہم انہیں یہ فراہم کریں گے اور جو نہیں تسلیم کرتے انہیں یہ فراہم نہیں کی جائے گی۔ اس طرح اس کھیل کے سیاسی مقاصد ہیں۔ ویکسین اسرائیل میں تیار ہے مگر تقسیم نہیں کی گئی۔ چین نے پہلے ہی کہا تھا کہ ووہان آنے والے پانچ امریکی کھلاڑیوں کے ذریعے منتقل کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے اس کھیل کا مقصد اسرائیل کو ایک عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنا ہے۔ گویا کہ یہ اسرائیل کا عالمی طاقت کے طور پر ٹیک آف کا ایک انداز ہے۔
یہ حسین ہارون کی بیان کردہ کہانی کا خلاصہ ہے۔ حقیقت میں اس وڈیو میں وائرس اور ویکسین کے سند حق ایجاد یعنی پیٹنٹ نمبرز سمیت پورے ثبوت کے ساتھ کورونا وائرس کو امریکا کا کیمیکل ہتھیار کہا ہے۔ حسین ہارون کی اس انکشاف انگیز وڈیو کلپ سے پہلے یہ کھیل بڑی حد تک عیاں ہو چکا ہے۔ چین کے میڈیا نے پہلے ہی بہت محتاط انداز میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ کورونا وائرس امریکا کا تیار کردہ ہے اور اسے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت چین منتقل کیا گیا ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روز اول ہی سے اسے چینی وائرس کہہ کر چین کو عالمی سطح پر زچ کرنے کا سلسلہ جار رکھا۔ یہاں تک کہ وائٹ ہائوس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک امریکی صحافی نے ٹرمپ کی اس اصطلاح کو نسل پرستانہ قرار دیا۔ ٹرمپ نے اس سوال کے جواب میں ڈھٹائی سے کہا کہ وہ اسے چینی وائرس کہنے میں حق بجانب ہیں۔ عالمی طاقتوں کے تغیر وتبدل اور بنائو بگاڑ کے فیصلہ کن مراحل میں ایسے بڑے کھیل کھیلنا کوئی نئی بات نہیں۔ برطانیہ جب دنیا کی حکمرانی اور نوآبادیوں کا بوجھ اُٹھا کر تھک گیا تو دوسری عالمگیر جنگ چھیڑ دی گئی۔ نجانے ہٹلر کو ہٹ دھرمی کی راہ پر دھکیلنے کے لیے صدام حسین والا کارڈ استعمال کیا گیا ہو جب امریکی سفر مقیم بغداد نے صدام حسین سے خصوصی ملاقات میں اسے کویت پر چڑھ دوڑنے کا اشارہ دیا۔ جب صدام نے کویت پر چڑھائی کی تو کویت پر سے عراق کا قبضہ چھڑانے کے لیے امریکا نے خلیج میں طاقت کا وہ طویل المیعاد کھیل شروع کیا جو اب تک مختلف انداز سے جاری ہے۔ خلیج کی جنگ نے عالم عرب کو کمزور کرنے اور اسرائیل کے مشرق وسطیٰ میں بڑی طاقت بننے کے عمل کی بنیاد رکھ دی تھی۔ جس کے بعد اسرائیل کے تمام سخت گیر مخالف عرب حکمران ایک ایک کرکے عبرت ناک انجام کا شکار بنا دیے گئے۔ اس کھیل میں مشرق وسطیٰ کو ادھیڑ کر اسرائیل کو ٹارزن بننے کا راستہ دکھا دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے پردے سے امریکا کا ٹیک آف ہوا اور وہ برطانیہ کی جگہ ایک نئی سپر طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ عین ممکن ہے کہ اسرائیل کو عالمی میدان میں ایک بڑا کھیلاڑی بنانے کے لیے یہ سارا میلہ سجایا گیا ہو۔ اسرائیل جس طرح امریکا کے کندھوں پر سوار ہو چکا ہے وہ امریکا کے مستقبل کے لیے بھی اچھا شگون نہیں۔
کورونا بحران کے جاری رہنے کی صورت میں ماہرین ابھی سے ڈالر کے کمزور ہونے کی پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں سی این این کے اینکر فرید زکریا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے فنانشل ٹائمز کی معاون مدیر رعنا ڈوگر نے کہا ہے کہ جس طرح امریکی بازار حصص اور بانڈ مارکیٹ کو سہارا دینے کے لیے دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ رہے ہیں اس سے ڈالر کمزور ہوجائے۔ امریکا کورونا سے نمٹنے کے لیے جن منصوبوں کا اعلان کررہا ہے اس کے لیے رقم کا حصول ایک کار دارد ہے۔ اگر واقعی امریکا کورونا بحران میں معاشی طور پر کمزور ہو کر اس دلدل میں دھنس گیا تو اسرائیل ایک نئے کھلاڑی کے طور پر میدان میں آسکتا ہے۔ بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو ابھی منظر خاصا دھندلا ہے ابھی پوری انسانیت کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں مگر کورونا کی ایجاد اور برآمد کے پیچھے کوئی گریٹ گیم ہوئی یہ راز طشت ازبام ہو کر رہے گا۔ عالمی ساہو کار بہت بے رحم ہوتے ہیں اور ان کے کھیل بھی خونیں اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہوتے ہیں۔ انسانوں کو مروانا، خوف ہیجان اور سنسنی پیدا کرنا، معاشی اتھل پتھل جیسے کام ان کے لیے وڈیو گیمز کے ’’کی بورڈز‘‘ پر اُنگلیاں چلانے سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہوتے ہے۔ انسانیت روتی ہے مگر وہ آنسوئوں کی مالا میں اپنی شبیہ دیکھ کر اور اسے کھیل میں اپنی کامیابی جان کر دل ہی دل میں ہنس رہے ہوتے ہیں۔