عزیز فاطمہ
30مارچ، یوم سیاہ۔ پاکستانی قوم کا فخر، سچی ہمدرد اور غمگسار بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے اغواء کا دن، جب کچھ اقتدار اور طاقت کے نشے میں چْور عناصر نے چند سکوں اور مفادات کے عوض ایک معصوم پاکستانی کو اس کے تین بچوں سمیت دشمن کو تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا۔ 30 مارچ 2020 کو عافیہ صدیقی کے اغواء کو سترہ برس ہو گئے۔ ایک ماں کے لیے اس کی بیٹی کی جدائی کے تکلیف دہ اور صبر آزما سترہ برس۔ کہنے کو سترہ برس اور سہنے میں سترہ صدیاں۔ ان گزرے 17سال میں ملک کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے عافیہ کو کبھی فخر پاکستان کے نام سے پکارا تو کبھی قوم کی بیٹی کہہ کر۔ کبھی عورتوں کے عالمی دن ہی کو عافیہ صدیقی کے نام سے منسوب کر دیاگیا، جن میں ہمارے مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان پیش پیش رہے ہیں۔ وہ سیاستدان جو الیکشن سے قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ان کی رہائی کو انتخابی نعرے کے طور پر قوم کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے تو استعمال کرتے ہیں لیکن اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے بعد سرے سے بھول ہی جاتے ہیں۔ یا جان بوجھ کر اس موضوع سے صرف نظر کرتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ موجودہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے امریکی دوروں کے موقعے پر کیا۔ لیکن اس سب کے باوجود پاکستانی عوام کے دلوں میں خصوصاً عافیہ صدیقی کے اہل خانہ کے دلوں میں امید کی ایک کرن آج بھی روشن ہے کہ یقینا کوئی محمد بن قاسم آئے گا جو ایک مظلوم اور بے گناہ بیٹی کی فریاد سن کر داد رسی کرے گا۔
عافیہ صدیقی ارباب اختیار کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، گزرے سترہ سال میں کئی حکمران اس کسوٹی پر پرکھے جا چکے ہیں، لیکن کوئی بھی حکمران متعدد مواقع ہونے کے باوجود اس کسوٹی پر پورا نہیں اُتر سکا۔ اب باری وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی ہے۔ عمران خان وزیر اعظم بننے سے قبل کئی بار پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی کا رونا رو چکے ہیں کہ اگر میں اقتدار میں ہوتا تو کبھی پاکستانی بیگناہ بیٹی کو امریکی جیل میں نہ رہنے دیتا۔ اللہ پاک نے عمران خان کو موقع فراہم کیا ہے کہ اپنے دعوے کو سچ ثابت کر دکھائیں۔ آج ساری دنیا کو کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی کا خطرہ ہے۔ حکومتیں اپنے ملک کو اپنی عوام کو اس وبا سے بچانے کے لیے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی ہیں۔ جیلوں میں قید افراد کو رہا کر رہی ہیں۔ سی این این کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں یہ وائرس جیلوں تک پہنچ چکا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں کئی اموات متوقع ہیں۔ اس تما م صورتحال میں ڈاکٹر عافیہ کی فیملی انتہائی پریشا ن ہے کیونکہ گزشتہ تین سال سے ان کا ڈاکٹر عافیہ سے کوئی رابطہ نہیں ہے، نہ تو ویڈیو کال کے ذریعے اور نہ ہی فون کال کے ذریعے، جو ایک قیدی کا حق ہوتا ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ ان کی بیٹی عافیہ کس حال میں ہے؟ میں ارباب اختیار خصوصاً اپنے وزیر اعظم کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہوں گی کہ آپ عافیہ کی رہائی کے دو موقعے ضائع کر چکے ہیں، خدارا یہ تیسرا سنہری موقع ضائع نہ کیجیے گا۔ اپنے انتخابی دعووں کے برخلاف ابھی تک عافیہ کی رہائی کے لیے آپ نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ خدارا اب تو اپنے وعدے کو پورا کیجیے۔
ڈاکٹر عافیہ کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کے لیے باضابطہ طور پر خط لکھ کر عافیہ کی رہائی کا پْرزور مطالبہ کیجیے، کیونکہ یہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔ دوسرے ممالک کے حکمران اپنے قیدیوں کی امریکی جیلوں سے رہائی کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ عافیہ کی جان کو بھی کورونا وائرس سے خطرات لاحق ہیں، آپ بھی اپنی قوم کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کے لیے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بھرپور آواز بلند کیجیے، یقین مانیے اس جدو جہد میں پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے اور تاریخ میں آپ کا نام بھی پاکستانی مظلوم بیٹی کے مجرم کے طور پر لکھ دیا جائے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے کیے گئے اپنے وعدے اور اپنے فریضے کو پورا کیجیے، ان کی بحفاظت امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی ممکن بنائیں۔