مجھے یقین ہی نہیں آتا کہ اس دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، ہوچکا ہے یا ہوگا، وہ کسی انسان کی بلا شرکت غیرے اختراع ہے۔ کیونکہ میں تو وہ انسان ہوں جو نہ خود سے پیدا ہوسکا ہوں نا مرسکوں گا، یہی نہیں میں سو بھی اپنی مرضی سے نہیں سکتا اور اٹھ بھی نہیں سکتا۔ ہم بحیثیت انسان اشرف المخلوقات تو ہیں مگر اللہ کی ایسی مخلوق ہیں کہ جو بڑے بڑے ارادوں اور منصوبے کو بنانے کے باوجود انہیں اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، باتیں تو ہم سب انسان ہی بڑی بڑی کرلیتے ہیں مگر ہماری حقیقی حالت تو یہ ہے کہ نظر نہ آنے والی چیز سے بھی ڈر جایا کرتے ہیں اور ڈر کر خود کو تنہا قید ہونے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی تو کچھ ہم انسان ان دنوں کررہے ہیں اور کرنے پر مجبور ہیں۔ بس ایک جراثیم جسے کچھ لوگوں نے دیکھا بھی ہے یا نہیں یہ بھی یقین نہیں مگر ہم سب اس سے خوفزدہ ہوچکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کورونا وائرس ایک بیکٹیریا ہے اور بیکٹیریا کے اردو میں معنی جراثیم کے ہیں۔ مگر انگلش ٹو انگلش ڈکشنری میں بیکٹریا اور وائرس کو دو الگ الگ شے ظاہر کیا گیا ہے۔ وائرس کو بیکٹیریا سے چھوٹا بہت باریک عنصر بتایا گیا ہے۔ جی ہاں اسی وائرس کا نام سائنس دانوں نے اپنے دماغ سے ’’کورونا‘‘ رکھ دیا ہے۔ اس جراثیم کو کورونا نام دینے والے سائنس دانوں کا نام تو ہم معلوم نہیں کرسکے۔ مگر اس کا نام تاج یعنی کراون سے کورونا رکھنے کی وجہ یہ معلوم ہوسکی کہ کیونکہ یہ جن جراثیم کا اجتماع ہے وہ کراون کی شکل میں ’’مجتمع‘‘ ہیں۔ اس لیے اِسے کورونا کہہ دیا گیا ہے۔ کراون تو عزت بڑھانے کے طور پر سر پر سجایا جاتا ہے مگر کورونا نے تو سب کا سر اس طرح گھمایا ہوا ہے کہ ’’وہ سر جوڑ کر بیٹھنے‘‘ سے بھی محروم ہوگئے۔
اس جراثیم نے پوری دنیا کے انسانوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ کورونا کسی کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کب، کس نے بنایا یا خود وجود میں آیا یا تخلیق پایا البتہ یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اس وائرس کا نام بھی دیگر وائرس کی طرح ’’انٹر نیشنل کمیٹی آن ٹیکسونامی آف وائرسس‘‘ (international Committee on Taxonomy of Viruses) نے رکھا ہے۔ گمان نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے کہ یہ سب اللہ حکم کے مطابق ہم انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے ہورہا ہے۔ مطلب یہ صرف اور صرف اللہ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہے۔ اس لیے ہم سب کو خصوصاً مسلمانوں کو فوری طور پر اللہ ہی سے رجوع کرنا چاہیے، اس سے توبہ استغفار کرنا چاہیے۔ وہ بڑا معاف اور در گزر کرنے والا ہے مگر ہم سب کیا کررہے ہیں؟ باتیں! جی ہاں صرف رائے زنی میں مصروف ہیں۔ کچھ لوگ تو اس وائرس کو بنانے کا الزام امریکا پر ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں تو بہت سے لوگ اِسے یہودی سائنس دانوں کی عالمی سازش کہتے ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے یہ لوگ 2011 میں بننے والی ہالی ووڈ کی فلم کونٹاجن (Contagion) حوالہ دے رہے ہیں۔ ان کا سوال یہ ہے کہ آخر جو کچھ آج اس وائرس سے دنیا بھر میں ہورہا ہے وہ سب کچھ اس فلم میں 11 سال قبل کیسے دکھا دیا گیا یا فلمایا؟ آج بھی تو کورونا وائرس سے بچنے کے لیے سماجی فاصلوں (Social distancing) کی باتیں کی جارہی ہیں، آج بھی دنیا اس وائرس کی لپیٹ آگر اپنا نظام زندگی مفلوج کرچکی ہے اور مکہ اور مدینے کو بند کردیا گیا ہے۔ اسی طرح جیسے فلم میں دکھایا گیا ہے۔ بالکل ایسا لگ رہا ہے کہ جو فلم 2011 میں بن چکی ہے اس کی ریہرسل حقیقی صورت میں اب کی جارہی ہے۔ حیرت تو اس بات پر کہ فلم میں بالکل ایسا ہی بتایا گیا جیسا کہ اس وائرس سے سب کچھ ہورہا ہے، فلم میں دکھایا گیا چائنا سے کورونا وائرس کی وباء شروع ہوئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دلچسپ امر یہ کہ یہ فلم وائرس کی وباء پھیلنے سے چند روز قبل نیویارک میں دوبارہ دکھائی بھی گئی تھی۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس فلم میں ایک وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے ہمارے دین کے مقدس مقامات خانہ کعبہ، مسجد نبوی کو بند دکھا کر اللہ کے نظام سے جنگ کرنے کی کوشش کی گئی، تب ہی اس طرح کے وائرس کی شکل میں اللہ کا غیظ و غضب نازل ہوا اور پھر وہی کچھ ہورہا ہے جو فلم میں بتایا گیا ہے۔ کیوں نہیں ہوگا ایسا، جب اس فلم میں مقدس مقامات کو بند دکھانے پر کوئی احتجاج کہیں بھی نہیں کیا گیا کہیں بھی مسلمان مشتعل نہیں ہوئے، کہیں غصے کا اظہار نہیں کیا گیا۔ تب ہی اللہ نے یہ سب دکھانا شروع کیا جو فلم میں بتایا گیا تھا لیکن حقیقی طور پر امریکا اس کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں تیسرے نمبر پر آچکا جہاں 30 مارچ تک اس وائرس کا شکار ہونے والے افراد کی کل تعداد ایک لاکھ 43 ہزار سے زائد ہوچکی ہے جبکہ یہاں اس وائرس سے مرنے والے افراد کی مجموعی تعداد دس ہزار 779 ہوگئی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں COVID-19 کا شکار ہونے والے چار ہزار 562 افراد اب تک صحت مند ہوسکے جبکہ ایک لاکھ 35 ہزار افراد میں وائرس اب بھی موجود اور فعال ہے جن میں 2 ہزار 970 کی حالت تشویشناک ہے۔ اس وائرس کا شکار ہونے والے ملکوں میں پاکستان 32 ویں نمبر پر ہے۔ یہاں متاثرہ افراد کی تعداد 1625 ہے جبکہ جاں بحق ہونے والوں میں 8 افراد شامل ہیں۔ الحمدللہ پاکستان میں عوام کی مسلسل لاپروائی اور بد احتیاطی کے باوجود یہاں کورونا وائرس سے نقصانات کم ہوئے ہیں اور اب مزید اس میں بہتری آرہی ہے، 29 افراد مکمل صحت مند بھی ہوچکے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ پروردگار عالم اس وائرس کو پوری دنیا سے ہی جلد ختم کردے اور سب انسان جو تیری ہی مخلوق ہے انہیں معاف کردے آمین۔