جاوید الرحمن ترابی
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے مظالم جاری ہیں جب کہ وادی میں کرفیو اور لاک ڈائون 235 ویں روز میں داخل ہو گیا۔ معمولات زندگی بدستور مفلوج ہیں۔ سری نگر اسپتال میں داخل 65 سالہ شخص کورونا کے باعث جاں بحق ہو گیا۔ یہ وادی میں کورونا وائرس سے پہلی موت ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک سمیت بہت سے ممالک میں کورونا وائرس سے بچائو کے لیے کرفیو اور لاک ڈائون جاری ہے۔ اس دوران میں لوگوں کو ضروریات زندگی کے حصول کے لیے گھروں سے نکلنے کی اجازت اور اسپتالوں سمیت دیگر ضروریات کی فراہمی کے لیے دکانیں اور اسٹور کھلے ہیں جبکہ مقبوضہ وادی میں جبری اور سخت پابندیوں کا حامل کرفیو نافذ ہے۔ جس میں کسی بھی شہری کو کسی صورت گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ اسپتال تک بند ہیں موت کی صورت میں جنازہ اٹھانے اور قبرستان میں دفنانے کی بھی اجازت نہیں۔ وادی میں انسانی بحران بدترین صورت اختیار کر چکا ہے۔ اسپتالوں اور ادویات تک رسائی انسانیت کی توہین کی بھیانک مثال ہے۔
کورونا وائرس کی لپیٹ میں پوری دنیا آ چکی ہے۔ انسانی ہمدردی کے تحت کورونا سے متاثر ممالک بھی ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں مگر مودی سرکار کے مظالم بدستور جاری ہیں۔ بھارتی فورسز کی کشمیریوں پر درندگی اورسفاکیت میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر بھارت سے کورونا وائرس کے پیش نظر مقبوضہ جموں و کشمیر میں مواصلاتی بلیک آئوٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ میں دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے وہاں لوگوں کو طبی سہولتیں بروقت ملنی چاہئیں۔ میڈیکل ٹیموں اور سامان کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں تک پہنچنے دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی بلاتاخیر کرفیو اٹھانے اور معمولات زندگی بحال کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
آج پوری دنیا اس فکر اور تشویش میں مبتلا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کو کیسے روکنا ہے۔ اس حوالے سے احتیاطی اقدامات اٹھانے اور کورونا وائرس کے تدارک کے لیے مطلوبہ اور موثر ویکسین تیار کرنے کے لیے عالمی برادری سر جوڑ کر بیٹھی ہے‘ نامور سائنس دان اور طبی ماہرین ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کررہے ہیں‘ عالمی قیادتیں ایک دوسرے کے ساتھ دکھ اور یکجہتی کا اظہار کررہی ہیں اور اقوام عالم آج حرص و جاہ کو تج کر اور اپنے باہمی تنازعات و اختلافات کو پس پشت ڈال کر انسانیت کی بقاء و سلامتی کے اقدامات اٹھانے کی تمام ممکنہ تدبیریں تلاش اور اختیار کرنے میں مگن ہیں۔ آج آدھی سے زیادہ دنیا لاک ڈائون کی جانب جاچکی ہے۔ قرنطینہ میں جانے کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور تمام اہل کتاب‘ کلمہ گو اور دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی کورونا کی آفت کو ٹالنے کے لیے رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرچکے ہیں‘ خدا کے حضور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں اور انسانیت کی سلامتی و بھلائی کے لیے دست بدعا ہیں۔ خود بھارت کے اندر بھی کورونا وائرس کے خوف کے مہیب سائے پھیلے ہوئے ہیں اور تمام مذاہب کے لوگ باہمی تعاون اور بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ احتیاطی اقدامات اٹھا بھی رہے ہیں اور ان اقدامات کی بلاامتیاز مذہب ترغیب بھی دے رہے ہیں جبکہ بھارت کی مسلم اقلیتوں نے بھی متنازع شہریت قانون کیخلاف جاری احتجاج موخر کردیا ہے۔ مگر بھارتی جنونی مودی سرکار کو اپنے عوام کی حالت زار کا احساس ہے نہ انسانیت کی کوئی رمق اس کے دل میں کہیں موجزن نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں 232ویں روز بھی لاک ڈائون برقرار رکھ کر مظلوم کشمیریوں کا عرصۂ حیات بدستور تنگ کیا ہوا ہے جو اس کسمپرسی کی صورتحال میں خدانخواستہ کورونا وائرس کی زد میں آئیںگے تو علاج معالجہ کی سہولت ان کی دسترس ہی میں نہیں ہوگی جو اپنے پیاروں کو دفنانے کے لیے پہلے ہی اپنے گھروں کے صحنوں کو قبرستان میں تبدیل کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور بے روزگاری و فاقہ کشی کے عذاب سہتے ہوئے اپنی جانوں سے گزر رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی کی یہ صورتحال پہلے ہی اقوام عالم اور ان کی قیادتوں کو جھنجوڑ کر انسانیت کی دہائی دے رہی ہے جبکہ اب کورونا وائرس کے خوف اور اس کے مقابلہ کے لیے خود کو بے یارومددگار محسوس کرکے کشمیری عوام عملاً بے بس ہوچکے ہیں۔