حکومت اور حکومتی نظام کو ہی قرنطینہ کردیا جائے

320

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ملک بھر میں مزید 14 دن کے لیے لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مزید کاروبار زندگی متاثر رہے گا۔ سندھ حکومت 20 مارچ سے پہلے ہی 15 دن کا سخت لاک ڈاؤن کرچکی ہے جس کے نتیجے میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سمیت صوبے میں کاروبار مزید دو ہفتوں کے لیے بند ہوجائے گا جس سے شہر کی تقریباً ڈھائی کروڑ کی آبادی بری طرح متاثر ہوگی۔ ویسے تو وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن کے مخالف نظر آرہے تھے لیکن اب وہ 15 مارچ کے لاک ڈاؤن کے حمایتی نظر آرہے ہیں۔
راقم نے 26 مارچ کے کالم میں سوال اٹھایا تھا کہ اگر لاک ڈاؤن کے دوران متاثر ہونے والوں کی فوری امداد نہیں کی گئی تو انہیں ’’کیا بھوک سے مارا جائے گا؟‘‘۔ گزشتہ دنوں یہ بات واضح ہوئی کہ صوبائی حکومت لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرانے کے لیے زیادہ متحرک رہی، لیکن اس دوران غریبوں، یومیہ اجرت اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے لاکھوں افراد کا کیا ہوگا اس بارے میں حکومت زیادہ فکرمند نظر نہیں آئی۔ حکومت کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے خصوصی مراکز قائم کرنے پر توجہ دیتے ہوئے تو دکھائی دی لیکن فاقوں کا شکار ہونے والے افراد کے بارے میں کسی قسم کی فکر سے وہ بے نیاز دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ سندھ گورنمنٹ تمام سرکاری صوبائی اداروں سمیت حکومت کے سب ہی ملازمین اور وزراء و مشیران کی مارچ کی تنخواہوں سے 5 ہزار تا لاکھوں روپے ’’کورونا ایمرجنسی فنڈز‘‘ کے نام پر کٹوتی کرچکی ہے جس سے حکومت کو کم ازکم دو ارب روپے حاصل کرچکے۔ جبکہ حکومت کورونا وائرس کے متاثرین کی مدد کے لیے مخیر حضرات سے عطیات حاصل کرنے کے لیے سندھ بینک میں ایک خصوصی اکائونٹ بھی کھلوا چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن سے پریشان ہونے والوں کی مدد کے مناظر دیکھنے کو نہیں ملے۔ البتہ رینجرز کی طرف سے اس طرح کی مدد کیے جانے کی اطلاعات اور سوشل میڈیا کی فوٹیج نظر آئی۔ یہ بات درست ہے کہ لاک ڈاؤن ہی کورونا وائرس سے بچاؤ کا سب سے بہترین حل ہے مگر مقصد اگر انسانوں کی جانوں کا تحفظ ہے تو لاک ڈاؤن کے دوران ان سب کے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی ہوگا اور یہ ذمے داری حکومت کی ہے، مگر اس ضمن میں حکومت کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔ حفاظت کے نام پر حکومتوں کی جانب سے تخلیق کردہ خوف ہر جگہ غالب نظر آرہا ہے، ماسوائے اس جگہ کہ جہاں لوگوں کو بے ترتیب اور بد نظمی سے امداد دی جارہی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ صوبائی حکومت لوگوں کے گھروں تک راشن کیوں نہیں پہنچا پا رہی حالانکہ محکمہ بلدیات کے ماتحت 11 ہزار ملازمین پر مشتمل 440 کمیٹیاں تشکیل بھی دی جاچکی ہیں، مگر ان کمیٹیوں یا کمیٹیوں میں شامل افراد سے کیا کام لیا جارہا ہے یہ بات کسی کو نہیں معلوم۔ آرگنائزیشن آف اسمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹریز کے رہنما ممتاز تاجر محمود حامد کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یومیہ کم و بیش 20 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے جس سے مجموعی طور پر لاکھوں افراد شدید مالی بحران کا شکار ہوچکے ہیں، لاک ڈاؤن سے تمام کاروباری افراد عارضی بیروزگاری میں مبتلا ہوچکے ہیں اور یومیہ بنیادوں پر کماکر اپنا گھر چلانے والے افراد کے گھروں میں فاقوں تک نوبت آگئی ہے۔
خوشی قسمتی یہ ہے کہ کراچی میں ہمدرد انسانوں کی کمی نہیں ہے ان کے دل کراچی کی طرح پھیلے ہوئے ہیں، اس طرح جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن، چھیپا، ایدھی اور سیلانی جیسے ادارے بھی لوگوں کی مدد کے لیے سرگرم ہیں۔ جس کے باعث پریشان حال لوگوں کی کچھ نہ کچھ مدد کی جارہی ہے۔ یہاں یہ بات مجھے لکھتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں ہورہی ہے کہ کراچی میں غربت اور افلاس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس شہر میں یہاں کے غیر رجسٹرڈ ووٹرز لوگ جو یومیہ اجرت پر چھوٹے موٹے کام کرکے اپنا اور اپنے گھروں والوں کا پیٹ پالنے کے لیے شہر سے باہر سے آئے ہوئے ہیں اور آتے جاتے رہتے ہیں۔ جبکہ ایسے لوگوں کا ریکارڈ کراچی میں نہ ہونے کی وجہ سے وفاق اور صوبے کی جانب سے کراچی کو نیشنل فنانس و پرونشل فنانس کمیشن کی طرف سے وہ حق ادا نہیں کیا جاتا جو اس کا بنتا ہے۔
خیر بات کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی لاک ڈاون پر ہورہی ہے اس لیے حکومتی انتظامات اور اقدامات کے تناظر میں افسوسناک بات یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ حکومت کے پاس غریب اور کم آمدنی والے افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے جبکہ حکومت منتخب قومی و صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی اداروں سے مدد حاصل کرنے سے گریز کررہی ہے۔ جس کی وجہ سے شہر اور شہروں میں عزت دار اور پریشان حال لاکھوں افراد تک راشن وغیرہ پہنچانے کا کوئی نظام وضع نہیں ہے۔ جو امداد پاکستان رینجرز کے ذریعے تقسیم کی گئی یا کی جارہی ہے اس کی فوٹیج دیکھ کر افسوس اور سر پیٹنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تمام صورتحال وفاق اور صوبائی حکومتوں کے ’’شرم سے ڈوب مرنے‘‘ کی ہی تو ہے۔ حکومت کو یہ تو علم ہوگا ہی کہ پاکستان میں غربت کی شرح 30 فی صد ہے اگرچہ ملک میں غربت کی شرح میں گزشتہ برسوں کے دوران 35 فی صد کمی ہوئی ہے مگر اس کے باوجود عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان پاکستان کا سب سے غریب صوبہ ہے۔ بلوچستان میں غربت کی شرح 42.2 فی صد ہے، سندھ میں غربت کی شرح 34.2 فی صد ہے، خیبر پختون خوا میں غربت کی شرح 27 فی صد ہے، پنجاب میں 25 فی صد آبادی غربت کی شکار ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں 53 فی صد بچے غذائی قلت کے شکار ہیں۔ خیبر پختون خوا میں 49 فی صد بچے غذائی قلت کے شکار ہیں۔ سندھ میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد 47 فی صد ہے جبکہ پنجاب میں 38 فی صد بچے غذائی قلت کے شکار ہیں۔ یہ اعداد وشمار بھی وفاق حکومت اور صوبائی حکومتوں کا منہ چھڑاتے ہیں۔ بس اطمینان کی بات صرف اتنی سی ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کو یہ علم ہے کہ ملک میں لاک ڈاون کی وجہ ’’ہم ایک طرف سے لوگوں کورونا وائرس سے بچائیں گے اور دوسری طرف لوگ بھوک سے مرجائیں گے‘‘۔
اطمینان اس بات بھی کرلیا جائے کہ وزیر اعظم خود سوال کر رہے ہیں کہ ’’ہمارے غریب لوگوں کا کیا بنے گا؟‘‘ وزیر اعظم عمران خان کے اس سوال پر تو صرف یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ صرف کورونا وائرس مریضوں کو ہی نہیں بلکہ پوری حکومت اور اس کے نظام کو ہی قرنطینہ میں رکھ دیا جائے۔