مفتی کلیم رحمانی
یوں تو رسول اللہؐ کی پوری زندگی آزمائش، صبر اور انعام سے عبارت ہے، مگر آپؐ کے سفر ہجرت میں یہ تینوں چیزیں بہت نمایاں اور روشن انداز میں سامنے آتی ہیں۔ جس رات سردارانِ مکہ نے آپؐ پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنایا تھا، آپؐ اسی رات اپنے گھر سے روانہ ہوئے، اور اس وقت آپؐ گھر سے نکلے جبکہ مکہ کے ہر خاندان کا ایک نوجوان ہاتھ میں ننگی تلوار لیے ہوئے آپ کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھا اور ان کا منصوبہ یہ تھا کہ جب محمدؐ اپنے گھر سے باہر نکلیں تو ان پر یکبار گی تلواروں کا وار کر دیں، تا کہ آپؐ کے قتل کا الزام کسی ایک خاندان پر نہ آئے بلکہ تمام خاندانوں پر آئے اور خاندان بنی ہاشم کے لوگ آپؐ کے قتل کا انتقام نہ لے سکیں اور دیت پر آمادہ ہوجائیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سرداران مکہ نے کھلے عام آپؐ کے قتل کا فیصلہ کیا، اور قتل کی پوری تیاری کے ساتھ انھوں نے آپؐ کے مکان کا محاصرہ کر لیا، ادھر رسول اللہؐ کو بھی مشرکین مکہ کے اس فیصلہ اور اقدام کی خبر ہوگئی۔
آپؐ پر اللہ کے دین کی خاطر آنے والی آزمائش بڑی تھی تو آپؐ نے اتنا ہی بڑا صبر کیا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اتنا ہی بڑا انعام بھی دیا وہ یہ کہ آپؐ نے مکہ والوں کی امانتیں واپس کرنے کے لیے سیدنا علیؓ کو اپنے بستر پر سلادیا اور رات کی تاریکی میں قرآن کی سورہ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے مکان کا محاصرہ کرنے والے افراد کے سامنے سے گزر گئے، مگر وہ آپؐ کو دیکھ نہ سکے، در اصل یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی جو اللہ نے بطور انعام آپؐ کوعطا کی۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق رسول اللہؐ اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ مکہ سے نکلنے کے بعد رات کے اندھیرے ہی میں غار ثور میں جا کر چھپ گئے، اور کامل تین دن اور تین راتیں اسی غار میں چھپے رہے۔
غار ثور میں تین دن تین راتیں چھپ کر رہنا ایک بڑی آزمائش پر صبر کا اظہار تھا، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ اور ابو بکرؓ کو اس کا انعام یہ دیا کہ مکہ کے سراغ رساں آپؐ کو تلاش کرتے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ گئے، لیکن وہ آپؐ کو دیکھ نہیں سکے، یہاں تک کہ ان کی باتوں کی آواز آپؐ اور ابوبکرؓ کو سنائی دے رہی تھی تو اس موقع پر سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے تشویش کا اظہار کیا تو آپؐ نے فرمایا: غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: اے ابوبکر تیرا ان دو کے متعلق کیا خیال ہے، جن کا تیسرا اللہ ہے؟ غار ثور میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ اور ابوبکرؓ کی جو خصوصی مدد کی اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا تذکرہ سورہ توبہ میں بھی جنگ تبوک کے موقع پر کیا جبکہ منافقین جنگ میں شرکت سے منہ موڑ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا۔ ترجمہ: ’’اگر تم نے رسولؐ کی مدد نہیں کی تو تحقیق کہ اللہ ان کی مدد کر چکا ہے جبکہ کافروں نے انھیں نکال دیا تھا، جبکہ وہ دومیں کا دوسرا تھا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے، جبکہ اس کا ساتھی کہہ رہا تھا غم نہ کر بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس اللہ نے اس پر سکینت نازل فرمائی اور اس کی ایسے لشکروں سے تائید کی جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور اس نے بنادیا کافروں کے کلمہ کو نچلا اور اللہ کا کلمہ ہی بلند ہے اور اللہ تعالیٰ غالب حکیم ہے‘‘۔ (سورہ توبہ 40)
رسول اللہؐ کے سفر ہجرت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جب مکہ کے بہت سے لوگ آپؐ کو قتل کرنے کے لیے تلاش کر رہے تھے تو ان ہی دنوں اور تاریخوں میں مدینہ کے بہت سے لوگ آپؐ کے استقبال کے لیے بے چین تھے، ایک طرف بہت سی آنکھیں آپؐ کو قتل کرنے کے لیے تلاش کر رہی تھیں تو دوسری طرف بہت سی آنکھیں آپؐ کے دیدار کے لیے ترس رہی تھیں، اور یہ بھی قدرت کا عجیب معاملہ ہے کہ مکہ والوں کی جو آنکھیں آپؐ کو قتل کرنے کے لیے تلاش کر رہی تھیں ان آنکھوں نے نبوت سے پہلے بھی چالیس سال تک اور نبوت کے بعد بھی تیرہ سال تک آپؐ کی صداقت و امانت کا مشاہدہ کیا تھا، اور اہل مدینہ کی جو بہت سی آنکھیں آپؐ کے دیدار کے لیے ترس رہی تھی اور تڑپ رہی تھیں ان میں سے اکثر نے براہ راست آپؐ کے اخلاق و کردار کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔
مگر اس میں تعجب کی اس لیے کوئی بات نہیں ہے کہ دین کے لیے جس قسم کی آزمائش آتی ہے صبر کے نتیجہ میں اسی قسم کا انعام بھی ملتا ہے، رسول اللہؐ نے اللہ کی رضا کی خاطر اہل مکہ کی دشمنی اور مخالفت مول لی تھی، تو اللہ نے آپؐ کو اہل مدینہ کی محبت ووفاداری اور جانثاری و حمایت کی صورت میں انعام دیا، اور اللہ کی یہی سنت اہل حق کے ساتھ آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گی مگر افسوس ہے کہ آج کے دور کے اہل ایمان کی اکثریت اللہ کی اس سنت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے، اگر آج بھی اہل ایمان دین کے لیے ہر دشمنی، ہر خطرہ اور ہر آزمائش برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں، تو اللہ تعالیٰ پھر اہل ایمان کو ہجرتِ مدینہ جیسے مناظر دکھا سکتا ہے۔