افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سکھوں کے گوردوارے پر ہونے والے خود کش حملے میں پچیس افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمے داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔ اس حملے سے افغانستان میں امن کا منظر کچھ اور دھندلا ہو کر رہ گیا ہے۔ داعش کی سرگرمیاں تیز ہونے کا مطلب طالبان کی سودے بازی کی پوزیشن کا کمزور ہونا ہے۔ طالبان کی سودے بازی اور سیاسی پوزیشن کو کمزور کرنا کس کی خواہش ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بہت جلد ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ افغانستان کے گورد وارے پر حملہ کرنے والے شخص کا تعلق بھارت سے تھا۔ یہ انکشاف بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے نے کیا۔ اس کے بعد سکھ کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی وجہ بڑی حد تک عیاں ہو گئی۔ داعش نے اس مرحلے پر افغانستان میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان میں لڑنے والی واحد فورس صرف طالبان ہی نہیں بلکہ داعش بھی اس منظر پر موجود ہے۔ یوں اس مرحلے پر داعش کی اس کارروائی کو توجہ دلائو نوٹس کہا جا سکتا ہے۔
امریکا اس وقت اشرف غنی کی حکومت کے خوف، اعتراضات اور اپیلوں کو نظر انداز کرکے طالبان سے براہ راست معاملات طے کر فوجی انخلا کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے افغانستان کے موجودہ سیٹ اپ کو بچانے کے بجائے اپنی کھال بچانے کی فکر ہے تاکہ اگلے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی ووٹر کے سامنے یہ دعویٰ کرنے میں آسانی رہے کہ انہوں نے افغان جنگ ختم کرکے سترہ برس سے افغانستان کی دلدل میں دھنستے ہوئے امریکا کے انسانی اور معاشی وسائل کو مزید برباد ہونے سے بچا لیا۔ اس طرح وہ سترہ برس سے امریکی حکومتوں کی افغان اور جنگ بازی کی پالیسیوں کے کڑے ناقد حلقوں میں پزیرائی حاصل کرسکیں۔ امریکا کو اس سیاسی ضرورت کے تحت افغانستان سے انخلا کی جلدی ہے جبکہ افغان حکام اس وقت دو صدور اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں تقسیم ہو چکے ہیں اور دونوں اپنے صدر ہونے پر اصرار کر رہے ہیں۔ امریکی سیکرٹری خارجہ مائک پومپیو دونوں صدور کی صدارت کو یکجا کر کے اتحاد کی راہیں تلاش کرنے کابل آئے۔ انہوںنے دو صدارتی محلوں میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقاتیں کیں مگر دونوں اپنے موقف پر قائم رہے اور مصالحت کی ایک بھرپور کوشش ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ امریکا نے اس ناکامی کا غصہ اتارنے میں زیادہ دیر نہیں کی اور امریکی امداد میں ایک بلین ڈالر کمی کا اعلان کیا۔ پومپیو کے دفتر سے اس حوالے سے بیان بھی جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ پومیو کو اس بات پر شدید افسوس ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ مستقبل کی حکومت سازی پر آپس میں اتفاق رائے نہ کرسکے۔ اس ناکامی سے جہاں امریکا اور افغانستان کے باہمی تعلقات کو نقصان پہنچا وہیں اس سے ان افغان امریکیوں اور اتحادیوں کی بھی بے توقیری ہوئی جنہوں نے افغانستان کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ مائک پومپیو جہاں کابل کے حکمرانوں کے رویے سے شاکی اور نالاں دکھائی دیے وہیں وہ طالبان کے رویے سے خاصے مطمئن بھی نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے دوحہ مذاکرات اور پروسیس پر اطمینان کا اظہار کیا اور اعتراف کیا کہ اس معاہدے سے افغانستان میں امن آیا ہے اور اس دوران امریکی فوج پر حملے نہیں ہوئے۔ افغانستان میں دو صدور کے درمیان صلح کرانے میں ناکامی کے بعد واپس لوٹتے ہوئے مائک پومپیو نے دوحہ میں طالبان کے نمائندے ملا برادر سے ملاقات کی۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ طالبان بہت پُراعتماد انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس کابل کے حکمرانوں کی پوزیشن عدم اتفاق کے باعث کمزور سے کمزور تر ہورہی ہے۔
امریکا اب اشرف غنی حکومت پر طالبان قیدیوں کی رہائی پر زور دے رہا ہے۔ اس ساری صورت حال میں افغان مسئلہ خاصا اُلجھ رہا ہے اور طالبان کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ طالبان کابل حکومت کا تختہ اُلٹ ڈالنے کی پوزیشن میں آرہے ہیں اور عبداللہ عبداللہ کے صدارت پر اصرار نے اس کام کو طالبان کے لیے آسان بنا دیا ہے کیونکہ اس اعلان کا واضح مطلب یہ ہے کہ اشرف غنی کی حکومت شمال کی موثر اکائیوں کی حمایت سے محروم ہو چکی ہے۔ پشتونوں کی اکثریت پہلے ہی طالبان کی صورت میں کابل حکومت کی دوسری انتہا پر کھڑی ہے۔ اب اگر شمال کی مختلف قوتیں بھی اس حکومت سے کنارہ کشی کرتی ہیں تو اس کا مطلب اشرف غنی حکومت کی رٹ اور دائرہ اختیار میں مزید کمی ہے۔ ایسے میں داعش کے نام پر کھیل کو مزید خراب کرنے کے پیچھے کئی قوتیں ہو سکتی ہیں جن میں بھارت نمایاں اور سرِفہرست ہے، بھارت کے لیے افغانستان کے منظرنامے میں طالبان کا نمایاں کردار ایک خوفناک تصور ہے۔ بھارت کے بعد کئی دوسرے ممالک بھی اس تصور سے خوف کھاتے ہیں۔ اس لیے وہ داعش کو طالبان کے خلاف استعمال کرنے کی حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں مگر یہ بساط پر پٹتے ہوئے مہروں کی آخری چالیں ہیں۔