کورونا وائرس اور ہماری معیشت

272

 

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چاہے حکومتی سطح پر میٹنگیں ہوں اپوزیشن، فلاحی ادارے، صحت، مذہب، معیشت، معاشرت، تجارت، نفسیات، تعلیم و تربیت سے متعلق علما اور اسکالرز ہوں بحث اور گفتگو کا موضوع کورونا وائرس ہی ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ، معاشرے کا ہر فرد اور پیشہ ورانہ زندگی کا ہر جز اس سے متاثر ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جو میرے خیال میں تازہ ترین نہیں ہیں دنیا میں 60 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 2لاکھ صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ امریکا جو دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت، عسکری طاقت، سفارتی طاقت سمجھا جاتا ہے اس پر لرزہ طاری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے شروع میں اپنی طاقت کے نشے میں کورونا وائرس کو اہمیت نہ دی، آنے والے مشکل وقت میں امریکی قوم کو اس وبا کے خوفناک اثرات سے آگاہ کررہے ہیں کہ ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔ خوراک، صحت، تجارت، معیشت اور مالیات کے عالمی ادارے جن میں WHO, FAO, WTO, IMF شامل ہیں، اپنے اپنے اندازے اور تخمینوں سے دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں۔ مثلاً دُنیا کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں اضافے کے بجائے منفی ہونے کا اندیشہ ہے۔ تجارت منجمد ہے اور پیداوار میں کمی ہونے سے خوراک کی فراہمی شدید متاثر ہو گئی اور قحط و قلت کا اندیشہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کی مصنوعات کی کھپت گر جانے سے تیل کی آمدنی پر زیادہ انحصار کرنے والے ممالک شدید بحران کا شکار ہو سکتے ہیں جس سے ان ممالک میں کام کرنے والے تارکین وطن کی ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں اور وہ ممالک جن کی معیشت میں ترسیلات زر کا اہم کردار ہے وہ بُری طرح متاثر ہوں گے جس میں پاکستان سمیت ایشیا کے ترقی پزیر ممالک شامل ہیں۔
آپ ایک مثال سے ان منفی اثرات کو کافی حد تک سمجھ سکتے ہیں ہر سال بائیس تئیس لاکھ حاجی ادائیگی حج کے لیے سعودی عرب کا رُخ کرتے ہیں، تقریباً تمام اسلامی ممالک میں حج کی سہولت، تربیت، قانونی کارروائی اور ضروری اشیا کی فراہمی کے لیے چھوٹے بڑے بے شمار نجی ادارے قائم ہیں جو حاجیوں کے لیے قانونی دستایزات کی تیاری سے لے کر احرام، سوٹ کیس، ہینڈ بیگ، خواتین کے اسکارف اور مخصوص لباس، دیگر ضروری اشیا کی فراہمی اور تربیت کا انتظام کرتے ہیں ان تمام کاموں سے ہزاروں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے، پھر مکہ یا مدینہ پہنچ کر ان حجاج کرام کے لیے ٹرانسپورٹ قیام و طعام سے ہزاروں لوگ منسلک ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس سال حج کا فریضہ معطل ہو جاتا ہے تو ایک بڑی تعداد میں لوگوں کا روزگار متاثر ہو گا۔ اسی طرح آج کل عمرے کی ادائیگی کا معاملہ رُکا ہوا ہے ، اس کے اپنے منفی اثرات ہیں دوسری طرف سعودی عرب کی معیشت میں عازمین حج و عمرہ کا اہم کردار ہے وہ بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا۔
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاک ڈائون کے برے اور اچھے اثرات کی بحث میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے کارکن اور مزدوروں کو راشن اور امداد کی فراہمی کے لیے دھڑا دھڑ اعلانات اور دعوے ہو رہے ہیں، پہلے کہا گیا کہ تین ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں گے۔ جب اس رقم کے ناکافی ہونے کا احساس ہوا تو اب اعلان فرما رہے ہیں کہ 6 ہزار روپے ماہانہ فراہم کیے جائیں گے۔ پنجاب میں اعلان ہوا کہ اکٹھے 12ہزار روپے 4ماہ کے لیے دیے جائیں گے۔ پھر یہ سوچ بچار شروع ہوئی کہ امداد کی فراہمی کس طرح ہو۔ بیورو کریسی کا مشورہ تھا جو ہمارے پاس غریب اور مستحق لوگوں کی فہرستیں پہلے سے جو موجود ہیں ان کو یہ امداد پہنچائی۔ تحریک انصاف کے ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی نے منتخب افراد کے ذریعے امداد پر زور دیا۔ اب ایک ٹائیگر فورس بنائی جارہی ہے جس کے ذریعے امداد کی تقسیم کا کام انجام پائے گا۔ دوسری طرف مستحقین کی فہرستوں کی تیاری کا کام بھی چل رہا ہے غریب لوگوں کا روزگار بند ہوئے دو ہفتے ہونے کو آئے۔ مگر حکومتی سطح پر ابھی تک طریقہ کار ہی وضح کیا جارہا ہے اور جہاں امداد پہنچائی جارہی ہے۔ وہاں امداد سے زیادہ وہ فوٹو سیشن پر زیادہ زور ہے۔ اس کے مقابلے میں غیر سرکاری رفاعی و فلاحی ادارے بھی الخدمت فائونڈیشن، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ، اخوت فائونڈیشن، ایدھی ٹرسٹ وغیرہ نقد رقم اور راشن کی فراہمی کے لیے موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
جہاں تک مجموعی پاکستانی معیشت کا معاملہ ہے تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی سے پاکستان کی تین چار ارب ڈالر کی بچت ہوگی جس سے کرنٹ اکائونٹ بہتر ہوگا لیکن دوسری طرف ایکسپورٹ آرڈر رُکے ہوئے ہیں، اسی طرح لاک ڈائون کی وجہ سے تجارتی صنعتی سرگرمیاں منجمد ہیں ایسے میں شرح سود میں کمی کا مثبت اثر نظر نہیں آرہا۔ ایسے سرکاری افسران بھی ہیں جو لاک ڈائون کرانے کے لیے دودھ کی دکان اور دودھ بیچنے والے بچوں سمیت بند کردیتے ہیں اور بچے چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں کہ لاک ڈائون میں دودھ کی دکان شامل نہیں ہے۔
ان حالات میں قوم کو اللہ سے اپنا تعلق بڑھانے اور استغفار کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت کو چاہیے کہ امداد کی فراہمی کا سلسلہ جلد شروع کرے قبل اس کے یہ لوگ کورونا کے بجائے بھوک سے مرنا شروع ہو جائیں۔