اس بحث سے قطع نظر کہ کورونا وائرس انسانی ہاتھوں کا تیار کردہ ہے یا قدرتی۔ اسے قصداً پھیلایا گیا اب یہ تو ساری دنیا نے تسلیم کرلیا ہے کہ وائرس ہے اور اس سے لوگ بڑی تعداد میں بیمار ہورہے ہیں اور ہلاک بھی ہورہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں آگہی کے لیے تمام اسپتال کورونا سے متاثر ہونے والے مریضوں کے بارے میں پوری تفصیل جاری کریں کہ کس عمر کے کتنے لوگوں کا انتقال ہوا، ان کو کیا کیا بیماریاں تھیں، یہ کام دنیا بھر میں کیا جاتا ہے تا کہ لوگوں کو بیماریوں سے بچایا جاسکے۔ لیکن ایک بڑا سوال ہے کہ کیا ہماری حکومتیں اور مقتدر طبقہ یہ کام کرے گا اور کرنے دے گا؟ کیوں کہ اس بارے میں کوئی رپورٹ ایک مرتبہ جاری ہونے کے بعد متعلقہ ادارے کی ذمے داری ہوجاتی ہے اسے رپورٹ کی بنیاد پر جوابدہی کرنی پڑے گی۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ روزانہ خبریں آرہی ہیں کہ آج کورونا کے مشتبہ مریضوں کی تعداد میں ڈیڑھ سو کا اضافہ، 30 افراد کو باضابطہ مریض قرار دے دیا گیا۔ اس بارے میں بھی ہم پریشان ہیں کہ مشتبہ ہونے کی کیا علامات ہیں، کس پیمانے پر ناپا جاتا ہے کہ کسی کو مشتبہ قرار دیا جائے، پھر کیا ٹیسٹ لیا جاتا ہے کہ اسے مریض قرار دیا جاسکے۔ ان دونوں باتوں کے بعد کا مرحلہ یہ ہے کہ جن اسپتالوں کو قرنطینہ قرار دیا گیا ہے یا جہاں جہاں مراکز بنائے گئے ہیں یا باقاعدہ حفاظتی کٹس اور لباس کے ساتھ میڈیا کو وہاں لے جانے کی ضرورت ہے تا کہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ ان مریضوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جارہا ہے، انہیں کیا کھلایا جاتا ہے، ان کو وٹامنز کتنے دیے جارہے ہیں، صفائی کا کیا حال ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہم نے یہ بات یوں ہی نہیں کہہ دی۔ نہ یہ بات مسعود انور کے مضامین پڑھ کر متاثر ہونے کے نتیجے میں نہیں کہی ہے، ہمارا موقف ہے کہ ہر شہری کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ کون کون سے لوگ کورونا سے مرے ہیں ان کو پہلے سے کیا بیماریاں تھیں، ان کی موت کا سبب کیا تھا۔ یہ کام حکومت اور اسپتالوں کا ہے۔ جب بھی آپ کسی اسپتال میں جائیں تو عملہ بی پی چیک کرتا ہے، بیماریوں کی تفصیل جانتا ہے، فیملی میں کس کو کیا کیا بیماریاں ہیں، اس کے علاوہ کون کون سی دوا استعمال کرتے ہیں لیکن پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اس وقت ایک ہی کام ہورہا ہے کہ آج سو آدمی کورونا کے مریض قرار دے دیے گئے اب تو امریکی ڈاکٹروں نے باقاعدہ یہ ثابت کیا ہے کہ کورونا کا ٹیسٹ ناقص ہے۔ ڈاکٹر اینڈریو کاضمین نے دیگر چار ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کورونا ٹیسٹ کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی اور یہ ثابت کیا ہے کہ کورونا ٹیسٹ کے لیے کسی وائرس کے ٹیسٹ کی ضروریات اور مراحل کا خیال نہیں رکھا گیا۔ سرسری ٹیسٹ کے بعد ہی ہر کسی کو مریض قرار دیا جارہا ہے۔ اس طریقہ کار سے تو ہر پانچ میں سے چوتھا آدمی کورونا کا مریض ثابت ہوجائے گا۔ ڈاکٹر کاضمین کی تحقیق کو کسی جانب سے اب تک تو چیلنج نہیں کیا گیا ہے اور اس کا امکان بھی نہیں لگتا۔ ہم بار بار توجہ دلاتے رہے ہیں کہ آج کل عالمی سطح پر جو خبر پھیلادی جاتی ہے اس کی تصدیق کے بغیر ہم سب ایمان لے آتے ہیں، ہر معاملے میں ابہام ہے، کورونا کے جرثومے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ہوا میں چندہ نہیں رہتا۔ اس کا شکار 9 سال تک کے بچے نہیں ہوتے۔ یہ 22 درجے گرمی میں مرجاتا ہے۔ زیادہ تر اموات ان لوگوں کی ہوئی ہیں جو پہلے سے دیگر مہلک بیماریوں میں مبتلا تھے۔ خود سرکار نے جو اعلان سوچ سمجھ کر ٹیلی فون کمپنیوں کو دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا خطرناک ہے لیکن جان لیوا نہیں۔ تو پھر لوگوں کی جان کیوں لی جارہی ہے۔ اب تو جمعہ کی نماز بھی بند کرادی، اب تو کورونا مرجانا چاہیے تھا، اب ڈاکٹر کاضمین نے جو کچھ کہا ہے اس کے بارے میں کوئی تو ریسرچ لائے بلکہ میڈیا کی مہم تیز کردی گئی ہے۔ روزنامہ جنگ میں جمعرات کو خبر شائع ہوئی کہ کس دن کون سا مریض کتنی عمر والا مرا اور اس کو کیا کیا بیماریاں تھیں۔ اس خبر کے ساتھ ہی دو خبریں اور لگی ہوئی تھیں کہ کورونا ہر عمر کے افراد کو لگتا ہے۔ کورونا سے صرف ضعیف مریضوں کے متاثر ہونے کی تھیوری غلط ثابت ہوگئی۔ جب کہ اس کے برابر والی خبر میں ہلاک ہونے والوں کی عمریں اور بیماریاں لکھی ہوئی ہیں۔ لیکن لوگ پروپیگنڈے اور خبر میں امتیاز نہیں کر پا رہے۔
ڈاکٹر کاضمین اور امریکی اور جرمن صحافی کی رپورٹس تو چشم کشا ہیں۔ پاکستانی مرکزی دھارے کا (مین اسٹریم) میڈیا تو سچ نہیں بتاتا پھر سوشل میڈیا پر اعتبار کیا جاتا ہے لیکن اس میڈیا پر جو کچھ چلتا ہے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ ایک خیال یہ ہے کہ سوشل میڈیا غیر ذمے دار ہے جب کہ دوسرا خیال ہے کہ مرکزی دھارے کا میڈیا غلام ہے اور جو اوپر سے کہا جاتا ہے اس کو آگے بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی نے حکومت سے مریضوں کا ڈیٹا مانگا ہے۔ یہ ڈیٹا تو روزانہ کام کرنے والوں کا بھی لینا چاہیے اور فیکٹری ملوں وغیرہ میں کام کرنے والوں کا بھی۔ آنے والے دنوں میں ڈیٹا کی بہت اہمیت ہوگی۔ پاکستانی حکومتوں کو تو ڈیٹا رکھنے کی عادت ہونی چاہیے، کبھی زلزلہ، کبھی سیلاب، کبھی بارش اور اب کورونا۔ لیکن کوئی تو یہ ڈیٹا جمع کررہا ہے۔ اگر پاکستانی حکومت نہیں کرے گی تو کوئی اور کرے گا۔ حکومتوں کو کیوں نہیں معلوم کہ ان کے عوام کس کس حال میں ہیں۔ ایسے یہ حقیقت ہے کہ این جی اوز کے پاس حکومتوں سے زیادہ ڈیٹا ہوتا ہے۔