محمد اکرم خالد
جس وقت کورونا وائرس کی پیدائش چین میں ہوئی اور وہاں تعلیم کی غرض سے گئے پاکستانی طلبہ نے وطن واپسی کا مطالبہ کیا تو اُس وقت پاکستان کی حکومت کو خبردار ہونے کی ضرورت تھی اُسی وقت ایسے اقدامات اُٹھا لینے کی اشد ضرورت تھی جن سے ملک و قوم کو محفوظ رکھا جاسکتا یقینا وفاقی حکومت نے اس جانب توجہ دی ہوگی مگر جیسے جیسے یہ وبا بڑھنے لگی تو حکومت ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے لچک کا مظاہر کرتی نظر آئی یقینا یہ وائرس چین سے پاکستان منتقل نہیں ہوا جس کا ہمیں بڑا خدشہ تھا یہ وائرس ایران سے پاکستان میں ایک ایسے وقت میں داخل ہوا جب ایران اس وائرس کی مکمل لپیٹ میں تھا یہ ایرن اور پاکستان کی حکومتوں کی بڑی نااہلی تھی کہ اس وائرس کی موجودگی میں بھی زائرین کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم کی غرض سے گئے چند طلبہ کو چین کی حکومت کے ساتھ مل کر روکا گیا مگر ایک بڑی تعداد جو پاک ایران بارڈر سے آتی جاتی رہی ان پر قابو نہیں پایا گیا، ان کو اگر اُسی وقت روک لیا جاتا اور ہمارے ارباب اختیار سنجیدگی کا مظاہر کرتے اور فوری طور پر بیرون ملک فلائٹ آپریشن کو روک دیتے تو شاید آج ہم کورونا وائرس میں اتنا مبتلا نہ ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران اس ناگہانی آفت پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ یقینا کورونا وائرس کی پاکستان میں منتقلی میں وفاقی وزیر اوور سیز ذلفی بخاری ملوث ہیں۔ ذلفی بخاری ایک بزنس مین ہیں جن پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔ آج پاکستان کورونا وائرس کی زد میں ہے اور اس وقت بھی حکومت ایرانی زائرین کے معاملے پر غیر سنجیدگی کا مظاہر کر رہی ہے۔ ساتھ ہی سندھ حکومت جس نے لاک ڈائون کر کے لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے بجائے ان میں ہر ممکن اضافہ کر دیا ہے۔ ایران سے آنے والے زائرین کی دیکھ بھال ان کی اسکینگ کے عمل کو غیرسنجیدہ لیا جارہا ہے، اسی طرح تبلیغی جماعت سے منسلک افراد کے ساتھ بھی ناروا سلوک کر کہ وفاق اور صوبے اپنی غیر سنجیدگی کا مظاہر کر رہے ہیں۔ اس وقت وفاق بیرونی ممالک سے امداد حاصل کرنے کے لیے کورونا وائرس کو کیش کررہا ہے، تو چاروں صوبائی حکومتیں بھی صرف وفاق سے امداد لے کر خزانے بھرنے کے موڈ میں دکھائی دے رہی ہیں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری جو ایک محفوظ پُرسکون محل میں ضروریات زندگی کی تمام تر سہولتوں کے ساتھ بیٹھ کر لاک ڈائون کے فیصلے کر رہے ہیں شاید وہ کراچی شہر کے عوامی مسائل پر بے خبر ہیں یا پھر ان مسائل پر اپنی سیاست کو مزید مضبوط کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ سندھ حکومت مسلسل لاک ڈائون پر توجہ دیتے ہوئے عوام کو گھروں میں قید کرنے پر تو زور دے رہی ہے مگر عوامی ریلیف کے پیکیج پر عوام کو صرف دھوکا دیا جارہا ہے۔ کراچی میں ایک کروڑ سے زائد ایسے لوگ ہیں جو اس وقت معاشی پریشانی کی زد میں ہیں کیوں کہ ان کے چھوٹے چھوٹے کاروبار لاک ڈائون کی نذر ہوگئے ہیں دو کروڑ کی آبادی میں حکومت سندھ اگر ایک ڈیڑھ لاکھ رجسٹرڈ افراد کو سیاسی بنیادوں پر ریلیف فراہم کرے تو کیا یہ عوامی ریلیف پیکیج ہوسکتا ہے۔ دہاڑی پیشہ طبقے سے لے کر کرائے، دار دکاندار طبقہ اس وقت سخت پریشانی کا شکار ہے اور سندھ حکومت مزید لاک ڈائون کی جانب بڑھ رہی ہے اس وقت کراچی شہر میں اکثر مقامات پر عوام احتجاج کرنا شروع ہوگئے ہیں، کیوںکہ وفاق اور صوبے عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں مکمل ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ ٹریفک پولیس عوام کو غیر ضروری تنگ کر کے رشوت طلب کر رہی ہے جس کا وزیر اعلیٰ سندھ فوری نوٹس لیں۔ دوسری جانب وفاقی حکومت اپنی نااہلی وناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے زائرین اور تبلیغی جماعت کے افراد پر الزامات عائد کر کے نفرتیں پیدا کر رہی ہے۔ نمازیوں کو باجماعت نماز سے تو روکا جارہا ہے مگر ایسے انتظامات نہیں کیے جارہے جس سے لوگ اللہ کے سامنے جھک کر استغفار کر سکیں۔ بدقسمتی اس ملک کی کہ آج بھی اس ملک کو سیاسی لسانیت قومیت فرقوں کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یکجہتی کا فقدان ہے۔
وفاق اور صوبے اگر عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکتے تو کم ازکم اپنا گھر چلانے کے لیے حکومت عوام کو کاروباری سہولتیں فراہم کرے تاکہ ہم کورونا پر بھی قابو پا سکیں اور اپنا معاشی نظام بھی چلا سکیں، کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان معاشی طور پر کمزور ملک ہے۔ یورپی ممالک جیسی ہماری معیشت نہیں جو عوام کو لاک ڈائون کر کے ان کے گھروں میں تمام تر سہولتیں مہیا کر سکیں البتہ ہم اپنی معاشی کمزوریوں اور عوامی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے احتیاط کے مختلف راستے اپنا سکتے ہیں۔ تعلیمی نظام تو دو تین ماہ کے لیے بند کیا جاسکتا ہے مگر معاشی نظام کو دیر تک بند رکھنے سے پاکستان مزید معاشی بحران کی زد میں یقینا مبتلا ہوسکتا ہے اور ہم کئی سال مزید پیچھے جاسکتے ہیں اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو کاروبار کرنے میں ریلیف فراہم کریں، کاروبار کے اوقات طے کر دیے جائیں لوگوں کو احتیاط کے طریقے بتا دیے جائیں، خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ ہر شخص اس وقت سخت معاشی بحران کی زد میں ہے ان کو مزید لاک ڈائون کی نذر کرنے کے بجائے ان کو احتیاط پر عمل کرتے ہوئے ان کو کاروبار کی اجازت دی جائے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اس کو مزید لاک ڈائون کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔