قانونِ فطرت سے بغاوت

749

جب سے کورونا وائرس، جس کا کیمیائی نام ’’Covid19‘‘ ہے، کی وبا شروع ہوئی ہے، میں اس کے مادّی اسباب کے ساتھ ساتھ اس کے روحانی اور اخلاقی اسباب پر بھی مسلسل غور کر رہا ہوں، جدید مادّہ پرست دنیا کی ساری تگ وتاز تو مادّے سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ لیکن مسلمان کا کام ظاہری اسباب کے ساتھ ساتھ اس پر بھی سوچ بچار کرنا ہوتا ہے کہ مادہ خود خالق نہیں ہے، مخلوق ہے، لہٰذا مادّی اسباب اور اس پر مرتّب ہونے والے نتائج کے تانے بانے کے پیچھے کہیں نہ کہیں خالق کی مشیت بھی کارفرما ہوتی ہے۔ اسی لیے میں وقتاً فوقتاً رضائے الٰہی اور مشیتِ الٰہی کا فرق اپنے قارئین کے سامنے بیان کرتا رہتا ہوں۔
پس جزا وسزا، عروج وزوال، صحت ومرض، آفات وبلیات، تندوتیز آندھیاں، بارشیں، سیلاب، زلزلے وغیرہ، ان سب کے اسباب کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور اچانک ان اسباب کے ظہور اور ان کے پیدا کردہ نتائج کے پیچھے بھی مشیتِ الٰہی کارفرما ہوتی ہے، اسی طرح میں کائنات میں اللہ تعالیٰ کے جاری تکوینی نظام اور وتشریعی احکام کا فرق بھی بیان کرتا رہتا ہوں۔
سو انسان نے تکوینی اور تشریعی دونوں اعتبارات سے فطرت سے بغاوت کر رکھی ہے، تشریعی عبارات سے بغاوت کا سلسلہ ایمانیات، عبادات، معاملات اور اخلاقیات الغرض تمام شعبوں پر محیط ہے، شیطان کے آدم وحوا پر پہلے حملے کا مقصد قرآنِ کریم نے ستر وحیا کو سلب کرنے کا بتایا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے آدم! تم اور تمہاری بیوی (دونوں) جنت میں رہو، تم دونوں جہاں سے چاہو کھائو اور (خبردار!) اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجائو گے، تو شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان دونوں کی شرمگاہیں جو ان سے چھپائی گئی تھیں، (انجامِ کار) ان پر ظاہر کردے اور کہا: تمہارے ربّ نے تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ مبادا تم دونوں فرشتے بن جائویا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجائو اور اس نے ان دونوں کو قسم کھا کر کہا: بے شک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں، پھر فریب سے ان کو اپنی طرف مائل کرلیا، پس جب ان دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کی شرمگاہیں ان پر ظاہر ہوگئیں اور وہ اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے اور ان کے ربّ نے انہیں پکار کر فرمایا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کیا تھا اور میں نے تم دونوں سے نہ کہا تھا: بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، (الاعراف: 19-22)‘‘۔
الغرض بنی آدم کی عریانی روزِ اول سے شیطان کا ہدف تھا اور آج تک نت نئے طریقوں سے چلا آرہا ہے، چنانچہ مزاج شناسِ رسول، خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے اولین خطبۂ خلافت میں فرمایا تھا: ’’اور جب کسی قوم میں فحاشی اور بے حیائی عام ہوجائے گی تو اللہ اس پر بلائیں اور آزمائشیں مسلط فرمائے گا‘‘، چنانچہ ماضی کی روایات اور قیاسات کے برعکس کورونا وائرس کی وبا کا آغاز ان ممالک سے ہوا جہاں فحاشی سب سے زیادہ تھی، حالانکہ ماضی میں وبائوں کا شکار زیادہ تر پسماندہ ممالک ہوتے تھے۔ پھر اس کی معراج Lesbian (ہم جنس پرست عورتیں)، Gays (ہم جنس پرست مرد)،Bisexual (جو دونوں صنفوں کے لیے کشش کا باعث ہو) اور Transgender (خواجہ سرا جسے یہ حق دیا گیا ہے کہ حقیقت سے قطع نظر اپنے آپ کو جو صنف چاہے، قرار دیدے)، امریکا میں اس گروپ کو LGBT گروپ کہا جاتا ہے اور Transgender یا ماورائے صنف کا قانون ہماری پارلیمنٹ سے پاس ہوچکا ہے اور فطرتِ الٰہی سے اس سے بڑی بغاوت اور کیا ہوگی۔
دوسری اہم چیز ماضی کی سرکش قوموں میں طاقت کا زعم تھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پس رہے عاد! تو انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے زیادہ قوت والا کون ہے، کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے، ان سے بہت زیادہ قوت والا ہے اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے تھے، (حم السجدہ: 13)‘‘۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک فرعون نے زمین میں سرکشی کی، (القصص: 4)‘‘، ایسا ہی خدائی کا دعویٰ نمرود نے کیا تھا اور یہی طاقت کا زعم وغرور دورِ حاضر کے فرعون میں بھی ہے، چنانچہ نائن الیون کے بعد اُس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش نے افغانستان پر یلغار کا اعلان میدانِ جنگ میں اترنے سے پہلے ہی کردیا تھا اور کہا: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے‘‘۔ مگر اللہ کی قدرت دیکھیے کہ 19سال کی جنگ اور ہزارہا ارب ڈالرز پھونکنے کے بعد آج بھی وہ موعودہ اور مزعومہ فتح عنقا ہے، سراب ہے، ایک ڈرائونا خواب ہے اور بش کے دوسرے جانشین ٹرمپ کو کہنا پڑا: ’’لڑتے لڑتے تمام فریق تھک چکے تھے‘‘، جبکہ طالبان کے نمائندے شیر محمد استانکزئی نے کہا: ’’ہمارے لیے امن جنگ سے زیادہ مشکل ہے‘‘۔
دوسری جانب انسان نے فطرت کے بنائے ہوئے تکوینی نظام کو بھی آلودہ کردیا۔ بحر وبر آلودہ، فضا آلودہ، خلائوں کو بھی اپنے اسلحے اور طاقت کی آماجگاہ بنادیا، آج ترقی یافتہ ممالک خود ارضی، فضائی اور ماحولیاتی آلودگی کی دہائی دے رہے ہیں۔ ارضِ الٰہی اور اس پر آباد انسانوں، قسم قسم کے حیوانات، نباتات، الغرض ہر شے کی بربادی کے لیے تباہ کن وآتشیں اسلحے کے انبار لگا دیے ہیں، ایٹم بم، ہائیڈروجن بم سے آگے بڑھ کر اب ایسے حیات کُش (Biological) ہتھیار بنانے کی دوڑ میں لگے ہیں کہ ان کے دشمنوں کی حیات ختم ہوجائے، مگر عمارات، تنصیبات اور شہر محفوظ رہیں۔ لباس، غذائیں، دوائیں الغرض ہرچیز کیمیکلز سے آلودہ ہوچکی ہے حتیٰ کی زمین کی روئیدگی کی صلاحیت بڑھانے کے لیے کیمیائی کھاد، جراثیم کش ادویات کی اتنی بھرمار ہے کہ کوئی چیز خالص نہیں رہی، برائیلر مرغیاں پیدا کی گئیں، جانوروں کا گوشت اور دودھ بڑھانے کے لیے بھی کیمیائی خوراک و انجکشن، جانوروں کی افزائشِ نسل کے لیے انجکشن، الغرض کوئی چیز خالص نہ رہی۔ فطرت میں ہر چیز کے ارتقا کا ایک دورانیہ اور میکنزم تھا، انسان کی عجلت پسندی اور کثرت پسندی نے قدرت کے تدریجی ارتقا کو بدل دیا، جس سے اجناس، لحمیات، پھلوں اور سبزیوں وغیرہ میں وہ غذائیت نہیں رہی، بلکہ ایلوپیتھک میڈیسن کی طرح اشیائے خوراک کے بھی منفی اثرات کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مصنوعی چیزوں کی بہتات نے انسان کی قدرتی مدافعت کی صلاحیت کو تقریباً مفلوج کردیا ہے، پہلے جانوروں کے وائرس اور جرثومے انسانوں پر اس حد تک اثر انداز نہیں ہوتے تھے، جیسے اب ہیں، حتیٰ کہ دنیا کی واحد مادّی سپر پاور کو یہ دعویٰ کرنے کا یارا بھی نہ رہا کہ ہم اتنے دنوں میں کورونا وائرس کو شکست دے کر فتح کا جشن منائیں گے، بلکہ اس کے برعکس امریکی صدر ٹرمپ کو کہنا پڑا کہ اگر کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں میں اموات کی تعداد (Death Toll) کو ہم ایک لاکھ تک محدود کرلیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی، اب امریکا کی ٹاسک فورس نے کہا ہے کہ اموات کی تعداد ڈھائی لاکھ تک جاسکتی ہے اور سات سو امریکی فوجی بھی کورونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں اور انہیں بھی قرنطینہ میں منتقل کیا جارہا ہے، الغرض ابھی امریکا میں اس کا پھیلائو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
کراچی میں (NIBD) National Institute of Blood Desease یعنی ادارۂ امراضِ خون کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی نے پلازما (Plasma) کا علاج تجویز کیا ہے، پلازما خون کے بے رنگ رقیق جز کو کہتے ہیں جو کورونا وائرس سے صحت یافتہ شخص کے خون سے نکال کر وائرس زدہ مریض کے خون میں منتقل (Transfused) کیا جاتا ہے تاکہ اس کی مدافعتی صلاحیت کورونا وائرس کا مقابلہ کرسکے۔ ڈاکٹرز اس کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ وائرس سے صحت یاب شخص کی (Antibodies) نکال کر وائرس زدہ شخص کو دی جا سکیں تاکہ وہ اس کا مقابلہ کر سکے۔
نیز (Plasmapharesis) اور (Immunotherapy) سے علاج کرنے کی کوشش جاری ہے، وائرس سے متاثرہ مریض کے پلازمہ سے (Toxins) نکالنے کے عمل کو (Plasmapharesis) کہتے ہیں اور قوت مدافعت کو (Strengthen) کرنے کے عمل کو (Immunotherapy) کہتے ہیں۔
مزید یہ کہ دنیا بھر کے سائنس دان اور دوائیاں بنانے والی کمپنیوں کی (Research Laboratories) اس کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ اس وائرس سے بچنے کے لیے (Vaccine) اور (Anti-Viral) جلد از جلد تیار کی جائیں۔ ابھی چند دن پہلے Bill Gates نے Pharmaceutical companies اور Biotech firms کے سنڈیکیٹ کو 50 ملین ڈالر کی رقم دی ہے، تاکہ جلد از جلد اس وائرس سے بچنے کے لیے Vaccine تیار کر سکیں۔ ان دوا ساز کمپنیوں نے یہ معاہدہ بھی کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنا ڈیٹا شیئر کریں گے، تاکہ کام میں تیزی آ سکے۔ مگر اس سب کے باوجود ویکسین بنانے کے عمل میں 12سے 15ماہ لگ سکتے ہیں۔
امریکا اور روسرے ممالک میں ایک اینٹی وائرل Remdesivir محدود بنیادوں پر انتہائی بیمار افراد کو دی جا رہی ہے۔ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ وہ کتنی نفع بخش ہے۔ اسی طرح نیو یارک اور دوسری جگہوں پر Plasmapharesis سے بھی علاج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اگرچہ ملیریا کی دوا Hydroxycholoquine سے بھی علاج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن ہماری اطلاع کے مطابق نہ یہ اب تک منظور شدہ طریقۂ علاج ہے اور نہ اس کی تائید میں اتنا ڈیٹا موجود ہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ جن ملکوں اور جن علاقوں میں ملیریا عام ہے، وہاں Coronavirus قدرے کم ہے۔
ابھی تو ایک فیصلہ کُن جنگ ’’اسٹار وار‘‘ ہوگی کہ مدمقابل حربی طاقتیں ایک دوسرے کی سٹیلائٹس کو تباہ کریں گی اور پھر سب عرش سے فرش پر آجائیں گے، کیونکہ ان کی ساری سپر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا اعصابی نظام سٹیلائٹ سے کنٹرول ہورہا ہے، جب وہ درہم برہم ہوگا تو پورے نظام کے تانے بانے بکھر جائیں گے، غالب نے کہا ہے:
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
جب ملک میں آبادی کے تناسب سے اسپتال نہ ہوں، ڈاکٹرز کے لیے معیاری حفاظتی کٹس نہ ہوں، مریضوں کے لیے معیاری ٹیسٹنگ کے وسائل دستیاب نہ ہوں اور نہ کافی تعداد میں ٹیسٹنگ مراکز ہوں، خاص طور پر جبکہ آئوٹ ڈور عام مریضوں کے لیے بھی اسپتال بند کردیے گئے ہوں، وہاں چھ ماہ تک بھی لاک ڈائون ہوجائے، تب بھی حقیقی اعداد وشمار دستیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمارے ہاں ویسے بھی ہرچیز کے اعداد وشمار کی کہانی ایک فسانۂ عجائب ہوتی ہے، بس اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار اور دعائوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔