آہ! ’’چراغ‘‘ گل ہوگیا…مولانا محمد سراج الحسن کی رحلت

377

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
عالمی سطح پر اسلام پسندوں اور خاص طور پر تحریکی حلقوں میں یہ خبر بہت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا محمد سراج الحسن کا 2 اپریل 2020 کو سہ پہر میں انتقال ہوگیا۔ موصوف 88 برس کے تھے۔ چند دنوں قبل وہ واش روم میں گر گئے تھے، جس سے ان کے کولہے کی ہڈی دوبارہ ٹوٹ گئی تھی۔ گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر ڈاکٹروں نے آپریشن مناسب نہیں سمجھا۔ بالآخر جاں بر نہ ہوسکے اور آج روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
مولانا سراج الحسن کی ولادت مارچ 1932 میں جوال گیرا، ضلع رائچور (کرناٹک) میں ہوئی، والد کا نام ابو الحسن تھا۔ ابتدائی اسکولی تعلیم کے بعد انہوں نے اپنے گھر پر ہی مختلف علوم کا مطالعہ جاری رکھا۔ وہ 19 برس کی عمر میں جماعت اسلامی ہند سے متعارف ہوگئے تھے اور اس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے تھے۔ 1957 میں پچیس برس کی عمر میں وہ جماعت کے رکن بن گئے، اگلے ہی برس انہیں حلقہ میسور (کرناٹک) کا امیر بنادیا گیا۔ اس وقت سے 1984 تک مسلسل 26 برس انہوں نے امیر حلقہ کی ذمے داری نبھائی، اس کے بعد انہیں جماعت کے مرکزی سیکرٹری کی حیثیت سے دہلی بلالیا گیا۔ 1989 کے اواخر اور 1990 کے اوائل میں 6 ماہ وہ قائم مقام امیرِ جماعت رہے۔ 1990 میں ان کا انتخاب امیر جماعت اسلامی ہند کی حیثیت سے ہوا۔ اس منصب پر وہ جماعت کی تین میقاتوں میں 13 برس تک فائز رہے۔
مولانا سراج الحسن جماعت اسلامی ہند کی امارت کی ذمے داری نبھانے کے ساتھ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، بابری مسجد رابطہ کمیٹی اور دیگر متعدد ملّی اداروں میں بھی سرگرم اور فعال کردار ادا کرتے تھے۔ ان کے دورِ امارت میں ہندوستانی مسلمانوں کو متعدد آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ 1992 میں شہادتِ بابری مسجد کے بعد خود جماعت اسلامی ہند پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان مواقع پر مولانا نے اپنی مومنانہ فراست، خداداد بصیرت اور معتدل مزاجی کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مولانا مرحوم کو اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کاموں میں خصوصی دل چسپی تھی۔ وہ اللہ کے بندوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ ملک کی مختلف نمایاں مذہبی شخصیات سے وہ گہرے روابط رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مل کر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا برقرار رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے ’’دھارمک جن مورچہ‘‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم کی تشکیل کی تھی۔ ان کی ان خدمات کی وجہ سے انہیں ملک کی تمام دینی و ملّی جماعتوں اور غیر مسلموں کے مختلف حلقوں میں قدر و تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
مولانا سراج الحسن بے مثال خطیب تھے، ان کی خطابت سامعین کو اپنا اسیر بنالیتی تھی، ان کی تقریریں گھن گرج والی ہوتی تھیں۔ جب وہ بولنا شروع کرتے تو سامعین گوش بر آواز ہوجاتے تھے۔ ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ جس سے بھی ملتے، بہت ٹوٹ کر ملتے تھے۔ ہر ملنے والے سے، چاہے اس سے ان کی پہلی ملاقات ہی ہوئی ہو، اتنی محبت، اپنائیت اور گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے کہ وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا۔
سابق امیر جماعت مولانا سراج الحسن راقم سطور سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔ میرا قیام علی گڑھ میں تھا اور میں ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستہ اور اس کے ترجمان سہ ماہی تحقیقات اسلامی کا معاون مدیر تھا، جب بھی ادارے یا کسی اور کام سے مرکز آنا ہوتا، مجھ پر نگاہ پڑتے ہی وہ آگے بڑھتے اور بڑی تپاک اور محبت سے ملتے، ادارے کے وابستگان اور علی گڑھ کے احباب کی خیریت دریافت کرتے، خصوصاً ادارے کے اُس وقت کے سیکرٹری اور سابق امیر جماعت مولانا سید جلال الدین عمری کا، جن کا اُن دنوں علی گڑھ میں قیام رہتا تھا، حال چال دریافت کرتے۔ پھر تحقیقات اسلامی میں شائع ہونے والی میری تازہ تحریروں پر اپنے تبصرے سے نوازتے، ان کی خوب تحسین کرتے اور بعض باتوں پر تبصرہ بھی کرتے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی کہ وہ اتنی مصروفیات کے باوجود اتنی گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں اور جزیات پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے۔
مولانا مرحوم نے مولانا ابو اللیث ندوی اصلاحیؒ سے جماعت کی امارت کا چارج لیا تھا۔ 13 برس کے بعد انہوں نے امارتِ جماعت پروفیسر محمد عبدالحق انصاریؒ کے حوالے کی۔ سبک دوشی کے بعد ایک موقع پر ان سے انٹرویو لیا گیا۔ انٹرویو لینے والے نے پہلا سوال یہ کیا: ’’جماعت کی امارت سے سبک دوش ہونے کے بعد آپ کی مصروفیات کیا ہیں؟‘‘ مولانا نے بڑا پیارا جواب دیا: ’’ہم جماعت کی امارت سے سبک دوش ہوئے ہیں، نہ کہ اس نصب العین سے جو زندگی کا نصب العین ہے۔ مستقر پر رہتا ہوں تو مطالعہ کرتا ہوں۔ اس دوران اسفار کے پروگرام بھی بنتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر کرناٹک میں مختلف مقامات پر جانا ہوتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ایمان لانے والوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔ (الاحزاب: 23) میں گواہی دیتا ہوں کہ مولانا محمد سراج الحسن نے اپنی زندگی کا جو نصب العین اختیار کیا تھا، زندگی کی آخری سانس تک اس کی پاس داری کرتے رہے۔ جب تک زندہ رہے، اسلام پر قائم رہے اور جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ایمان پر ان کا خاتمہ ہوا۔
اے اللہ! تو مولانا سراج الحسن سے راضی ہوجا، ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت بخش، ان کی سیأت سے درگزر فرما، انہیں جنّت الفردوس میں جگہ دے، ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل سے نواز اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرما۔ آمین، یا ربّ العالمین۔