کورونا: امریکی تکبر تنکوں کی طرح بکھر گیا

155

خالد احمد
مغربی ممالک میں کورونا وائرس کے تیز تر پھیلاؤ پر غور کیا جائے تو وہاں کی حکومتوں اور صحت کے اداروں نے اپنے بہتر نظام صحت اور اسپتالوں میں موجود سہولتوں پر زیادہ انحصار کرتے ہوئے لاک ڈاؤن میں تاخیر کی، جس کا سنگین خمیازہ وہاں کے معصوم عوام کو بھگتنا پڑا۔ چین کے شہر ووہان میں پھیلنے والی کورونا کی وبا سے پوری دنیا باخبر تھی لیکن مغربی ممالک نے اس وبا کو اتنی اہمیت نہ دی اور کاروبار زندگی میں مگن رہے جس کا خمیازہ معصوم عوام نے ہزاروں جانیں دے کر بھگتا۔
امریکی صدر کا تمسخر اور چینی وائرس کی صدا
امریکا نے شروع میں چین میں پھیلنے والی وبا پر چین کا مذاق اڑایا اور تمسخر اڑاتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں اسے چینی وائرس قرار دیا اور امریکا کے عوام کو ذہین اور مضبوط قرار دیتے ہوئے لاک ڈاؤن اور سرحدیں بند کرنے سے صاف انکار کردیا گوکہ امریکی سامراجی پالیسیوں میں کاروبار ہی کو اہمیت حاصل ہے اور اسے عوام کی زندگی اور کسی وبا سے متاثر ہونے کی چنداں کوئی فکر نہیں ہوتی جس کا خمیازہ مغربی ممالک کے عوام نے بھگتا ہے اور اب کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں میں امریکا تمام متاثرہ ممالک سے بازی لے جارہا ہے۔
کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک اور ہلاکتوں کی تعداد
امریکا میں کورونا وائرس سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ 2 لاکھ 77 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوچکے ہیں جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بھی 7 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ اس میں تیزی سے اضافہ بھی ہورہا ہے۔ اٹلی میں کورونا وائرس سے ایک لاکھ 19 ہزار سے زائد افراد متاثر اور 14 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں، جن میں اضافہ جاری ہے۔ اسپین میں ایک لاکھ 24 ہزار سے زیادہ افراد وائرس کا شکار ہوئے جب کہ 11 ہزار 7700 سے زیادہ جان کی بازی ہار گئے۔ جرمنی میں 91 لاکھ سے زیادہ افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں سے 1200 سے زیادہ ہلاک ہوئے۔ فرانس میں 82 ہزار سے زیادہ لوگ متاثر ئے جب کہ ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے 6 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ چین جہاں سب سے پہلے اس وبا نے ہلاکت خیزی پھیلائی، وہ اب عالمی فہرست میں چھٹے نمبر پر آچکا ہے۔ چین میں 81 ہزار 639 افراد کورنا کا شکار ہوئے، جن میں سے 3326 افراد دم توڑگئے۔ چین کے بعد سب سے پہلے وائرس ایران میں پھیلا، جو اب عالمی فہرست میں ساتویں نمبر پر آگیا ہے اور وہاں 53 ہزار 183افراد کورونا کا شکار ہوئے اور 3294افراد اس کا شکار ہوگئے۔ برطانیہ میں 38 ہزار 168 افراد کورونا کا شکار ہوئے اور 3 ہزار 6 سو سے زیادہ ہلاک ہوگئے۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں کورونا کے کیسز سامنے آئے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ہلاکتوں کی تعداد 4 اور 3 ہندسوں کو چھورہی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اب تک کورونا وائرس کی 3 ہزار سے زیادہ افراد میں تصدیق ہوگئی ہے ہلاکتوں کی تعداد 100 کے قریب ہے۔ اسرائیل ساڑھے 7 ہزار سے زیادہ افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور 40 سے زیادہ اسرائیلی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
امریکی غرور اور صحت کے نظام کی استعداد
صحت کی بہتر سہولیات کی اگر بات کی جائے تو سپر پاور امریکا کو اپنے بہتر حکومتی اور صحت کے نظام پر بہت فخر تھا جو اس وبائی صورتحال میں تنکوں کی طرح بکھرگیا ہے۔ جہاں نیویارک میں ہزاروں افراد وائرس کی تباہ کاری کا شکار ہوکر جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ پورا نیویارک شہر لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ شہر میں ہرطرف ہُو کا عالم ہے۔ امریکا کی ہر ریاست میں صورتحال انتہائی تشویشناک صورت اختیار کررہی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ کیا امریکا نے عالمی ادارہ صحت کی تنبیہ اور چین کی صورتحال کا جائزہ نہیں لیا، یا امریکی ریاست نے خود اپنے عوام کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ اس حوالے سے کئی باتیں اور تبصرے زیر گردش ہیں۔ جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس نے وبائی صورت اختیار کی تو چند روز بعد چین کی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ ووہان شہر میں فوجی مشقوں کے لیے آنے والے امریکی فوجیوں کو قرار دیا کہ یہ فوجی ہی وائرس پھیلانے کا ذریعہ بنے ہیں، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس بریفنگ میں چین کا تمسخر اڑانے کی کوشش کی اور کورونا وائرس کو چینی وائرس کہہ کر چینی عوام کی تضحیک کرنے کی کوشش کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وائرس سے ہزاروں ہلاکتوں کے باوجود کیا امریکی حکومت کو خبر نہ تھی کہ یہ وائرس اتنا مہلک ثابت ہوگا یا جان بوجھ کر اپنے عوام کو اس وبا میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا یا وائرس کے پھیلاؤ کا حتمی الزام خود پر آنے کے بعد امریکی عوام کو قربانی کا بکرا بناکر خود پر لگنے والے الزام کو دھونے کی کوشش کی گئی۔ سامراجی نظام میں ایسا ہونا کوئی عجب بھی نہیں۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ دجالی قوت کے پیروکار افراد، جنہیں عرف عام میں فری میسن کہا جاتا ہے، وہ دنیا کی آبادی کم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کسی بھی مہلک ہتھیار کے استعمال اور کسی بھی جنگ سے گریز نہیں کرتے، تاہم مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے وہ ممالک جو یہ ہتھیار استعمال کریں ان کے بھی زد میں آنے کا خطرہ ہوسکتا ہے اور جنگ بھی پھیل کر کسی نئے منظر نامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔ لہٰذا دنیا کی بڑھتی آبادی کو کم کرنے کا طریقہ اس گروہ کو یہ سُوجھا کہ کوئی حیاتیاتی (بائیولوجیکل) ہتھیار بنایا جائے جس کے وار سے نتائج حاصل کیے جائیں کورونا وائرس پر تحقیق کرنے والے محققین کا اتفاق ہے کہ یہ وائرس موڈیفائی کیا گیا ہے یعنی کورونا وائرس کے گروپ میں موجود وائرسز میں سے ایک وائرس COVID-19 کو کسی جنیاتی لیبارٹری میں تبدیل اور ترمیم کرکے اتنا مہلک بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے اب تک اس پر قابو پانے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔
کوڈ 19 کا اسلامی اور غریب ممالک پر اثر
کورونا وائرس کی حشر سامانی کے اسلامی ممالک اور ترقی پذیر دنیا پر اثرات قدرے کم رہے ہیں جن کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان میں ایسے ممالک کا موسم اور حفاظتی اقدامات میں لاک ڈاؤن اور سماجی دُوری اختیار کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ گوکہ ان ممالک کی حکومتوں کے ان اقدامات سے یہاں کے عوام کو شدید مشکلات اور پریشانی کا سامنا ہے لیکن وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے غریب سے غریب ملک کی بھی کوشش ہے کہ لاک ڈاؤن اور گھروں میں رہنے کی پابندیوں سے اس وائرس کی تباہ کاری کو روکا جائے۔ صحت کے کمزور نظام اور سہولتوں کی کمی کے باعث یہ ممالک لاک ڈاؤن اور سماجی دُوری کی پابندیوں سے عوام کو استثنا دینے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اس صورت میں ان ممالک میں ہزاروں افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے یا ہلاک ہونے پر صورتحال قابو سے باہر بھی ہوسکتی ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی اور مقامی معیشتوں پر اثرات
کورونا وائرس کا ایک اور پہلو عالمی اور مقامی معیشت کی تباہی کی صورت میں بھی سامنے آرہا ہے جہاں کئی ممالک میں کئی ہفتوں سے کاروبار زندگی بند ہے اور صرف ضروریات زندگی کی دکانوں اور اسٹورز پر سامان خورونوش دستیاب ہے۔ اس صورتحال میں معیشت کے تمام شعبوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ دنیا کی تمام اسٹاک مارکیٹیں کریش کی صورتحال سے دوچار ہیں اور غریب ممالک عالمی مالیاتی اداروں سے مدد کے لیے اپیل کررہے ہیں اور ہنگامی فنڈز مانگ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر ترقی پذیر ممالک کو فنڈز فراہم نہ کیے گئے تو ان کی معیشت جو پہلے ہی دباؤ میں تھیں مزید تباہی سے دوچار ہوجائیں گی۔
کورونا وبا کا پاکستانی معاشرے پر اثر
پاکستان میں لاک ڈاؤن کو دو ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران ذرائع نقل و حمل، تجارت ، صنعت غرض ہر کاروبار رک گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران گھروں پر بند ہونے والے دہاڑی پیشہ اور مزدور طبقہ مشکل صورتحال سے دوچار ہے، جنہیں حکومت کی جانب سے ریلیف پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی مخیر حضرات بھی ان کی مدد میں پیش پیش ہیں لیکن درحقیقت اس صورتحال میں ہنگامی کام کی ضرورت ہے جس سے غریب اور متوسط طبقے کو آسانی سے اشیائے صرف اور خورونوش کی ترسیل ہوسکے اور وہ اس لاک ڈاؤن سے کم سے کم متاثر ہوسکیں۔
وبائ کے انسانی نفسیات پر اثرات
گوکہ دنیا میں آنے والی وباؤں میں موجودہ کورونا وائرس آخری وبا نہیں۔ دنیا میں بنی نوع انسان نے تاریخ میں کئی ہلاکت خیز وباؤں کا سامنا کیا ہے لیکن ان وباؤں کے وقت ذرائع نقل و حمل اور ذرائع ابلاغ موجود نہ ہونے سے ان وباؤں کا دوسرے ممالک اور خطوں پر اثر نہ ہونے کے برابر تھا مگر اب جدید انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت چین ، اٹلی اور ایران کی ہلاکت خیز وڈیوز اور خبروں کا عوام کے ذہن پر خوفناک اثر ہورہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ وبائی صورت میں سوشل میڈیا اور ٹی وی سے دُوری اختیار کی جائے۔ جہاں پل پل کی خبروں کا انسانی نفسیات اور ذہن پر منفی اثر پڑرہا ہے اور عوام میں خوف کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ اکثر افراد کو موت کا خوف لاحق ہورہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں بند ہونے والے افراد چڑچڑے پن کا شکار ہورہے ہیں، جس کا ایک حل یہ ہے کہ جو کام آپ نے فارغ اوقات کے لیے چن رکھے تھے وہ کرلیں اور اپنے پسندیدہ مشغلے جیسے کہ پینٹنگ اور کوکنگ اور دیگر تمام شوق جو آپ مصروفیت کی وجہ سے پورے نہیں کرسکے وہ گھر پر بیٹھ کر پورے کیے جاسکتے ہیں۔ اپنے گھر کی لائبریری سے کوئی اچھی کتاب نکال کر پڑھ سکتے ہیں اور عبادت کے لیے بے انتہا وقت ہے جس میں اللہ کو راضی کیا جاسکتا ہے۔