خطے کا امن تباہ کرنے کے لیے بھارتی بڑھکیں

176

سمیع اللہ ملک
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ولسن سینٹرمیں ایشیاپروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹرمائیکل کگلمین بیک وقت پاکستان،بھارت اورافغانستان کے ٹرپل ایجنٹ قرار دیے جانے پرایک منفردحیثیت کے حامل ہو گئےہیں۔ اس سلسلے میں ٹی وی ٹاک شو دی ریویو میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مائیکل نے کہا کہ میں جوکچھ کہتاہوں اگرواقعی اس پرقائم ہوں توپھرمجھے یہ بھرپورتاثردیناچاہیے کہ میں کوئی اچھاکام کررہاہوں۔ تینوں ملکوں کے حالات کااچھی طرح جائزہ لینے کے بعدکسی ملک پرتھوڑی بہت تنقید بھی جائزہے تومجھے اس سے گریزنہیں کرنا چاہیے۔ اس ٹاک شومیں مائیکل نے امریکی پالیسیوں کے علاوہ پاکستان،بھارت اورافغانستان کے حالات پرتفصیل سے بات کی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیاوہ ٹرپل ایجنٹ ہونے کے الزام کوخوش دِلی سے قبول کرتے ہیں تومائیکل نے کہااِس کے سواکوئی معقول راستہ نہیں۔اگرمیں ایسانہ کروں تومیری اپنی حوصلہ شکنی ہوگی۔ جب ان سے گزشتہ سال دسمبرمیں شائع ہونے والے ان کے ایک مضمون کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیاواقعی2020ء میں پاک بھارت جنگ ہوسکتی ہے توانہوں نے کہامیں نے یہ لکھاتھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کاامکان ہے مگریہ نہیں لکھاتھا کہ جنگ ہوکرہی رہے گی۔
اپنے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے مائیکل نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات میں اِس وقت جو کشیدگی ہے، وہ توپلوامہ میں فوجیوں کی ہلاکت اوراس کے بعدبالا کوٹ کے واقعے کے وقت بھی نہیں تھی۔ بھارتی آئین سے آرٹیکل370کے ختم کیے جانے سے معاملات میں جو تبدیلی رونما ہوئی ہے، وہ بہت بڑی ہے۔ اس تبدیلی کوگیم چینجرکہنازیادہ درست ہوگا۔ اس وقت معاملات اِتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی بڑاسانحہ رونماہوا توبہت بڑے پیمانے پرتصادم کوٹالناممکن نہ رہے گا۔ پلوامہ اور بالا کوٹ کے معاملے میں توامریکااور چند دوسرے بڑے عالمی پلیئرز نے ثالثی اورمصالحت کی پیشکش کی تھی تاکہ خطے میں کشیدگی کاگراف نیچے لایا جاسکے۔ اس بارایساکرناخاصادشوارہوگاکیونکہ اِس باربھارت میں انتہائی اعلیٰ سطح کے افسران اورحکومتی شخصیات کی طرف سے بڑھکیں ماری جا رہی ہیں۔ ایسے بیان سامنے آ رہے ہیں جن میں آزادکشمیرپرتصرف قائم کرنے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں۔ ایسی باتیں پہلے بھی سنائی دیتی رہی ہیں مگراب کے شدت کچھ زیادہ، بلکہ خطرناک ہے۔ حال ہی میں بھارتی آرمی چیف نے ایک بیان میں بڑھک مارتے ہوئے کہاتھاکہ حکومت حکم دے تو آزاد کشمیرپربھی قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی دوران مودی نے بھی ایک بیان میں کہاہے کہ پاکستان کوصرف دس دن میں دھول چاٹنے پرمجبورکیاجاسکتاہے۔بھارتی قیادت بڑھکیں مارنے پرتلی ہوئی ہے اوردوسری طرف بھارتی فوج کنٹرول لائن پرجنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے صورتِ حال کوکشیدہ اور خطرناک بنانے پر کمر بستہ ہے۔
جب مائیکل سے پوچھاگیا کہ کیاواقعی بھارت جنگ چھیڑدے گاتو انہوں نے کہایہ بات تونہیں کہی جاسکتی کہ بھارت جنگ چھیڑ ہی دے گا تاہم صورتِ حال کی نوعیت کہہ رہی ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بھارتی قیادت نے اب سے پہلے اس نوعیت کا لہجہ اختیار نہیں کیا۔ کشمیرکی آئینی حیثیت کی تبدیلی، شہریت سے متعلق متنازع قانون کی منظوری اوررام جنم بھومی مندرکی تعمیرکامعاملہ یہ سب بتارہے ہیں کہ اب صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ ایسے میں اگربھارتی قیادت کوئی بڑی مہم جوئی کرگزرے توحیرت نہ ہوگی۔ مائیکل کی باتوں سے پاکستان کے اس خدشے کی تصدیق ہوتی ہے کہ بھارت جنگ کے لیے بہانہ تلاش کرنے کے نام پرکوئی بھی ایسی ویسی واردات کرسکتا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انتہا پسند ہندوتنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے تربیت یافتہ مودی علاقائی ہی نہیں،عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ مبصرین کاکہناہے کہ بھارت کوفرانس سے جدیدترین رافیل طیاروں اورروس سے ایس400 میزائل سسٹم کے حصول تک انتظار کرناپڑے گا۔فی الوقت بھارت پاکستانی فضائیہ سے مسابقت کی پوزیشن میں نہیں۔ مائیکل کے مطابق عمران خان کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کوبنیادی طورپرمعیشت کی سمت درست کرنی تھی اورملک کوخوشحالی کی راہ پر ڈالناتھامگرایسالگتاہے کہ ان کے پاس ایساکرنے کی صلاحیت نہیں اوروہ تیزی سے پیچیدہ ہوتے ہوئے معاشی مسائل حل کرنے کی بھرپوراور مطلوبہ قابلیت نہیں رکھتے۔ معیشت کے معاملے میں حکومت ناکامی سے دوچارہوئی ہے تاہم یہ بھی ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے کہ عمران نے پلوامہ اوربالاکوٹ کے بحران سے نمٹنے کے معاملے میں اچھی مہارت کامظاہرہ کیا۔ عالمی برادری نے انہیں امن کی خواہش کے حوالے سے خوب سراہا۔
پاک امریکا تعلقات اور ٹرمپ سے ڈیووس میں اقتصادی فورم کے اجلاس کے موقع پرعمران کی ملاقات کے حوالے سے مائیکل نے کہا کہ اس وقت پاک امریکاتعلقات بہت اچھی حالت میں ہیں مگریہ کہناغلط ہوگا کہ جتنے اچھے اس وقت ہیں اتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ ٹرمپ نے کہاہے کہ اس وقت پاک امریکاتعلقات جس مقام پرہیں اتنے اچھے پہلے کبھی نہیں تھے،یہ بات درست نہیں ہے۔ امریکانے پاکستان کے لیے سلامتی سے متعلق تعاون معطل کردیا تھا ، یہ اب بھی معطل ہے مگرہاں،پاکستان نے افغانستان میں امن کی بحالی سے متعلق عمل کو ٓگے بڑھنے میں کلیدی کردارادا کیاہے تاہم جب ٹرمپ نے صدرکامنصب سنبھالاتھاتب دوطرفہ تعلقات جس نہج پرتھے اس سے کہیں بہترآج ہیں۔
افغانستان میں حقیقی اوردیرپاامن کے قیام کے لیے امریکا کوپاکستان کی ضرورت ہے۔ جب افغانستان میں امن مکمل طورپربحال ہو جائے گااوروہاں امریکی فوجی بھی تعینات نہیں رہیں گے تب پاک امریکا تعلقات کاکیابنے گا؟ کیا تب بھی امریکی پالیسی ساز پاکستان کوغیرمعمولی سطح پراہم گردانتے رہیں گے؟ اس حوالے سے مائیکل کہتے ہیںافغانستان میں حقیقی اوردیرپاامن کے قیام کے بعد پاکستان کاکیاہوگا،یہ بات بہت اہم ہے۔اس سے بڑھ کرایک سوال یہ ہے کہ کیاامریکی پالیسی سازپاکستان کوافغانستان سے ہٹ کربھی اہم گردانیں گے اوراسے اہمیت دی جاتی رہے گی۔