انتہائی سخت فیصلہ،قلمدان تبدیل

541

چینی اور گندم بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے رپورٹ جاری ہونے کے بعد وزیرا عظم عمران خان نے کابینہ میں شامل ان تمام افراد کے قلمدان تبدیل کردیے ہیں ، جن پر ملک کو لوٹنے اور مصنوعی بحران میں دھکیلنے کے الزامات ہیں۔ قلمدان میں ردوبدل کو اس طرح سے ظاہر کیا گیا ہے کہ جیسے عمران خان نے ملک کو لوٹنے والوں کے خلاف انتہائی سخت فیصلہ کیا ہے ۔ یہ وہی عمران خان نیازی ہیں جو انتخابات سے قبل ملک کو لوٹنے والوں کو عبرتناک سزا دینے اور ان سے لوٹی گئی رقم ملک کے خزانے میں جمع کروانے کے دعوے کیا کرتے تھے ۔ عمران خان نیازی کے قول و فعل میں ہمیشہ سے تضاد رہا ہے اور یہ تضاد چینی اور گندم کے اسکینڈل میں بھی کھل کر سامنے آگیا ہے ۔ تازہ تبدیلیوں کے مطابق خسرو بختیار کو وفاقی فوڈ سیکوریٹی کی وزارت سے ہٹا کر اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے۔اسی طرح حماد اظہر وزیر اقتصادی امور کی جگہ اب وزیر صنعت کا قلمدان سنبھا لیں گے۔یعنی پہلے جو کام خسرو بختیار کرتے رہے ، اب وہی کام حماد اظہر سرانجام دیں گے ۔ وزیر اعظم عمران خان نیازی کی کابینہ پر پہلے دن سے ہی انگلیاں اٹھ رہی تھیں مگر وہ ایک مرتبہ بھی کسی کو خاطر میں نہیں لائے اور اب تک اس پر جمے ہوئے ہیں ۔ جہانگیر ترین کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا مگر پھر بھی وہ غیر سرکاری طور پر ہر اہم پالیسی اجلاس میں شریک رہے بلکہ بعض اوقات وہ ان اجلاسوں کی صدارت بھی کرتے رہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس تو کوئی منصب ہی نہیں تھا،تھا تو ثبوت دکھائیں۔عمران خان نیازی کابینہ کی یہ ستم ظریفی ہے کہ ہر اس شخص کو اسی وزارت کا نگران بنایا گیا جہاں پر اس کے براہ راست مفادات تھے ۔ عبدالرزاق داؤد کے براہ راست مفادات اسٹیل کی درآمدات سے ہیں تو انہیں صنعت و پیداوار کی وزارت دے دی گئی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عبدالرزاق داؤد نے پاکستان اسٹیل کو بحال کرنے کی ہر کوشش کو کامیابی سے ناکام بنادیا۔ اس حقیقت کے باوجود اسی الزام میں عبدالرزاق داؤد کو چند ماہ کی وزارت کے بعد ہی عمران خان نیازی کے مربی جنرل پرویز مشرف نے چلتا کیا تھا ، انہوں نے عبدالرزاق داؤد کو سینے سے لگا کر رکھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں فولاد کی صنعت تو تباہ ہوئی ، اس کے ساتھ ساتھ ملک پر درآمدات کا زبردست بوجھ الگ پڑا ۔نام تو مشیر خزانہ کا بھی لیا جا رہا ہے جو اقتصادی رابطہ کمیٹی کی سربراہی کرتے رہے ہیں۔ جہانگیر ترین ، خسرو بختیار ، حماد اظہر سمیت دیگر افراد پر پہلے دن سے الزامات تھے جو اب ثابت بھی ہوگئے ہیں ۔ اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان افراد کو فوری طور پر حکومت سے الگ کیا جاتا ، ان کے خلاف عدالت میں ریفرنس دائر کیے جاتے اور ان سے سابق دعووں کے مطابق لوٹی گئی رقم بمع جرمانہ وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کروائی جاتی ۔ ان افراد کی وجہ سے ملکی خزانے کو جو نقصان پہنچا ہے ، اسے بھی ان سے ہی وصول کیا جاتا ۔ اس کے بجائے پہلے دن سے ہی یہ کوشش کی گئی کہ سارے ملزمان کو کسی طرح بچایا جائے ۔ سب سے پہلا کام تو یہی کیا گیا کہ فوری طور پر ایک کمیشن بٹھادیا گیا۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ ملزمان کو وقت مل جاتا ہے اور انہیں ابہام پیدا کرنے کے لامحدود مواقع حاصل ہوتے ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ہی معاملات پر گرد پڑنا شروع ہوجاتی ہے اور یوں معاملہ دب جاتا ہے یا پھر کوئی ایک نیا اسکینڈل جان بوجھ کر کھڑا کیا جاتا ہے جس میں گزشتہ اسکینڈل کو بھلا یا اور دبایا جاسکے ۔ سب سے پہلا تو سوال یہی ہے کہ جب ایک سرکاری تحقیقاتی ادارے نے پوری تحقیقات کے بعد رپورٹ پیش کردی تو پھر کمیشن بنانے اور فرانزک رپورٹ طلب کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اگر ایف آئی اے نے غٖلط رپورٹ بنائی ہے تو سب سے پہلے یہ رپورٹ بنانے والوں کو سزا دی جانی چاہیے اور اگر یہ رپورٹ درست ہے تو اس پر مزید تحقیقات کیوں کروائی جارہی ہیں ۔ وزرا، معاونین ، مشیروں سمیت تمام سیکریٹریوں کو فوری طور پر برطرف کرکے کیوں گرفتار نہیں کیا گیا ۔ جس وزارت میں بدعنوانی ہوئی ، اس وزارت کا نگراں پھر اسی اسکینڈل کے ایک ملزم کو کیوں بنادیا گیا ۔ اس تمام صورتحال سے ایک بات واضح ہے کہ عمران خان نیازی انتخابات سے قبل بدعنوانی کے خاتمے اور بیرون ملک بینکوں میں جمع پاکستان سے لوٹی گئی رقم کی واپسی کے جو نعرے بلند کرتے رہے ، ان میں وہ کبھی بھی سنجیدہ نہیں تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اب وہ اپنے اس بیانیے کو بھلا چکے ہیں اور یاد دلانے پر بھی دائیں بائیں ہوجاتے ہیں ۔ عمران خان نیازی کی پوری کابینہ زرداری اور مشرف کابینہ پر مشتمل رہی ہے اور ہے ۔ عمران خان نیازی نے عملی طور چالیس چوروں کونہ صرف اپنے ہمراہ رکھا ہے بلکہ وہ مسلسل ان کا دفاع بھی کرتے رہتے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ کسی بھی اسکینڈل کے سامنے آتے ہی حکمرانوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتی تھیں ، اب یہ صورتحال ہے کہ ڈھٹائی سے ا س کا سامنا کرتے ہیں ۔ نچلی سطح سے لے کر انتہائی بالائی سطح تک یہی سوچ ہے کہ جرم ثابت ہوگیا تو اس کا تبادلہ کردیا جائے ۔ کسی علاقے کے ایس ایچ او پر کسی کو بالائے قانون قتل ثابت ہوجائے یا بڑے پیمانے پر رشوت خوری ثابت ہوجائے تو اس کا کسی اور تھانے میں تبادلہ کردیا جاتا ہے ۔ کسی ادارے کے سربراہ پر بدعنوانی ثابت ہوجائے تو اس کا بھی تبادلہ کردیا جاتا ہے ۔ کسی سیکریٹری پر انتہائی سنگین الزامات ثابت ہوجائیںتو اس کا علاج بھی تبادلہ ہی ہے ۔ یہی کچھ عمران خان نے بھی کیا کہ وزرا کے تبادلے کردیے ۔ کسی بھی سطح پر اگر مجرم کو سزا دینے کی روایت ڈال دی جائے تو نہ صرف مجرموں کی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ ملک سے جرائم کے خاتمہ میںبھی مدد ملے گی ۔ عمران خان صاحب اس کا آغاز اپنی کابینہ سے ہی کریں اور لوٹی گئی رقم مجرموں سے وصول کرنے کا سلسلہ ابھی سے ہی شروع کریں تو ایک دن وہ بھی آجائے گا جب آپ بیرون ملک بینکوں میں جمع پاکستان سے لوٹی گئی رقم بھی واپس لے سکیں گے ۔ پھر وہ نعرہ بھی درست ہوسکے گا کہ بدعنوانوں اور چوروں کو نہیں چھوڑوں گا ۔ لیکن اس ساری لوٹ مار اور بد عنوانی کے ڈانڈے تو وزیر سے جا کر ملتے ہیں جن کی ناک کے نیچے سب ہوتا رہا ۔ فائدہ اٹھانے والوں کو ضرور پکڑیں لیکن جن کے حکم پر ہوا ان پر ہاتھ کب ڈالا جائے گا؟