ہوجا ئے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے

851

حسیب عماد صدیقی
میرے ایک چائنیز دوست نے دس سال قبل شنگھائی میں ایک لنچ کے دوران پوچھا کہ کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟ تو میں نے کہا ’’ہاں، بے شک‘‘۔ پھر میں نے اس سے جواباً پوچھا کہ کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو اس نے کہا ’’نہیں‘‘ میں اپنے آپ پر یقین رکھتا ہوں۔
2020 میں دنیا تبدیل ہوگئی۔ جس طرح ہم جنگ عظیم سے قبل اور بعد کی دنیا کی مثالیں دیا کرتے ہیں اسی طرح مورخ کورونا سے قبل اور کورونا کے بعد کی دنیا کا ذکر کرے گا۔ انسانی تاریخ میں وسائل پر قبضے کے لیے انسانوں کو غلام بنانے کا عمل ہزاروں سال جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جسمانی غلامی کی جگہ سرمایہ درانہ نظام کی معاشی غلامی کی صورت میں نئے دور کا آغاز ہوا، چھوٹے چھوٹے انفرادی کاروبار کی جگہ بڑے بڑے برانڈز، ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور سپر اسٹورز نے لے لی۔ ٹھیلے پر ملنے والے بن کباب، پھلوں کے رس، دودھ فروشوں کی دکانیں، درزی، موچی، یہاں تک کہ نائی اور قصائی کی دکانیں بھی بڑے بڑے برانڈز اور سپر اسٹورز کے نام پر سرمایہ داروں کے قبضہ میںچلی گئیں۔ اب انسان کارپوریٹ کلچر کا ملازم بن گیا اور اپنی تمام صلاحیتیں، ذہانت اور توانائیاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا منافع بڑھانے میں صرف کرنے پر مجبور ہوگیا۔ عملاً دنیا کی تمام دولت چند ہزار خاندانوں میں سمٹ گئی، اور باقی اربوں انسان ان کے معاشی غلام بن گئے۔ اس نظام کا سرخیل امریکا تھا۔ سرمایہ داروں نے سیاست، طاقت، ذہانت اور پروپیگنڈے کو اداروں کی شکل دیدی۔ امریکی نظام میں سیاست کی نمائندگی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، طاقت کی پینٹاگون، ذہانت کی پرائیویٹ یونیورسٹیز اور پروپیگنڈے کی نمائندگی میڈیا کرتا ہے۔ اور ان سب کے پیچھے سرمایہ دارچھپا ہوا ہے، جن کے مفادات کی حفاظت یہ ادارے کرتے ہیں۔
80 کی دہائی میں افغانستان میں روسی شکست نے سرمایہ داروں کو نیا حوصلہ بخشا اور سرمایہ داری کے عفریت نے اس کامیابی کو دنیا پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نیو ورلڈ آرڈر کا اعلان کر دیا۔ یعنی اب کوئی قوم سرمایاداری نظام کی مرضی کے خلاف نہیں جاسکتی۔ امریکا نے بے سروپا الزامات لگا کر بزور طاقت مختلف ممالک پر حملے شروع کردیے۔ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام اس کی مثال ہیں۔
9/11 کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو بہت سے ملکوں نے روسی شکست کا حوالہ دے کر امریکا کو روکنے کی کوشش کی لیکن امریکا نے تکبر میں آکر افغانستان پر حملہ کردیا۔ لگتا ہے قدرت کو یہ بات پسند نہیں آئی اور امریکا کو سبق سکھانے کا فیصلہ آسمانوں پر ہوگیا، پھر دنیا نے دیکھا کہ اس کرہ عرض کی سب سے طاقتور اور امیر قوم دنیا کی سب سے غریب اور کمزور قوم کے ہاتھوں ذلیل ہوگئی۔ اپنے تمام لائو لشکر، اتحادیوں کی مدد اور بیس سال کی جنگ کے باوجود امریکا افغانوں کو شکست نہ دے سکا۔ ایک طرف صدر ٹرمپ افغانوں کو ایک ہفتے میں صفحہ ہستی سے مٹانے کا دعویٰ کر رہا تھا اور دوسری طرف طالبان سے مذاکرات کے نام پر افغانستان سے نکلنے کی بھیک مانگ رہا تھا اور پھر انہیں طالبان کی شرائط پر نہایت عجلت اور افرا تفری میں معاہدے پر دستخط کر دیے۔
اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ بہت سے گناہ بخش دیتا ہے لیکن اپنی خدائی میں شرکت برداشت نہیں کرتا۔
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
اللہ تعالیٰ پہلے امریکا سمیت پوری دنیا کو 20 سال تک افغانیوں کے ذریعے یاد دلاتا رہا کہ میں موجود ہوں اور پھر ایک معمولی وائرس کے ذریعے خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کو سبق سکھا دیا۔
آج میگا کارپوریشنز لرز رہی ہیں، کارپوریٹ کلچر منہ کے بل گر رہا ہے، اگر کورونا وائرس کا پھیلائو اگلے تین چار ماہ جاری رہا تو پورے سرمایہ دارانہ نظام کی چولیں ہل جائیںگی۔ دنیا کی بڑی بڑی ائر لائنز، آئل کمپنیاں، فائیو اسٹار ہوٹلز، سیاحت کی انڈسٹری، آٹو موبیل اور الیکٹرونک انڈسٹریز دیوالیہ ہوجائیں گی۔ صرف امریکا میں آج کے دن تک ایک کروڑ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اور باقی دنیا میں بھی کروڑوں افراد کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے۔ وال مارٹ جیسے بڑے اسٹورز جس کا سالانہ بجٹ 500 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے میں صرف کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ کوئی سیل نہیں ہورہی۔ ایسا لگتا ہے کے دنیا واپس چھوٹے چھوٹے انفرادی کاروبار پر چلی جائیگی۔
دنیا کو یہ سبق مل گیا کہ بڑے بڑے میزائل، طیارہ بردار جہاز اور نیوکلیئر ہتھیار نہیں بلکہ صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع بڑھانے پر خرچ کرنا چاہیے، دنیا کی اقوام کو ہتھیاروں کے زور پر نہیں بلکہ تعلیم، صحت اور کاروبار میں مدد کے ذریعے ہم نوا بنایا جاسکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کے دنیا میں فلسطین اور کشمیر سمیت دیگر تمام مسائل کا منصفانہ حل تلاش کر کے دنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنایا جائے اور یہ تمام کام ہتھیار سازی کے مقابلے میں بہت کم خرچ کر کے ہوسکتا ہے۔
میرے ایک چائنیز دوست نے دس سال قبل شنگھائی میں ایک لنچ کے دوران پوچھا کہ کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟ تو میں نے کہا ’’ہاں، بے شک‘‘۔ پھر میں نے اس سے جواباً پوچھا کہ کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو اس نے کہا ’’نہیں‘‘ میں اپنے آپ پر یقین رکھتا ہوں۔ چین میں کورونا وائرس کی تباہی کے بعد آج اس کا فون آیا تو کہنے لگا کہ میں بھی اب خدا پر یقین رکھتا ہوں۔ اس کی یہ بات سن کر مجھے شاعر مزدور احسان دانش کا یہ شعر یاد آگیا
آجائو گے حالات کی زد پر جو کسی دن
ہوجائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے