وائرس ایک لازمی طفیلی ذرہ ہے جو انتہائی طاقتور خرد بین سے نظر آسکتا ہے، اس کی حیات کسی جاندار کے خلیے کی مرہون منّت ہوتی ہے، یہ اُس کے جسم میں انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔ وائرس لاطینی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی زہر ہے۔ وائرس از خود زندہ نہیں رہ سکتا، یہ کسی دوسرے جاندار کے خلیے کا ڈی این اے یا آر این اے استعمال کرتے ہوئے زندہ رہ سکتاہے، اس لیے اس کولازمی طفیلی اندرونی خلیہ کہاجاتا ہے۔
دور حاضر کے انسان کو سائنسی علم اور مادّی طاقت پر بڑا ناز ہے، طاقت پر ناز اور رعونت ماضی کی سرکش اقوام کا بھی وتیرہ رہا ہے، قرآنی آیات اس پر شاہد ہیں: (۱): ’’اور انہوں نے کہا: کیا جب ہم ہڈیوں (کا ڈھانچہ) ہوجائیں گے اور (گل کر) ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہمیں نئے سرے سے اٹھایا جائے گا، آپ کہیے: تم پتھر بن جائو یا لوہا یا کوئی اور مخلوق جو تمہارے خیال میں (اس سے بھی) بڑی ہو، تو وہ کہیں گے: ہمیں دوبارہ کون پیدا کرے گا، فرما دیجیے: وہی جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا، (بنی اسرائیل: 50-51)‘‘۔ (۲): ’’پس رہے عاد! تو انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے زیادہ قوت والا کون ہے، (حم السجدہ: 15)‘‘۔ آج کا انسان بھی اسی عُجب واستکبار میں مبتلا ہے، وہ اس خوش فہمی میں اپنے آپ کو برحق سمجھتا ہے کہ اس نے زمین کے سینے کو شق کردیا ہے، سمندروں کی گہرائیاں اور پہنائیاں ماپ لی ہیں، برسر زمین اور زیر زمین خزانے دریافت کرلیے ہیں، سمندروں کی بپھری ہوئی موجوں کو زیر کرلیا ہے، فضائوں کو تسخیر کرلیا ہے، ستاروں پہ کمندیں ڈال دی ہیں، خلائوں کی جانب عازمِ سفر ہے۔ وہ اس دنیا پر قانع نہیں ہے، نئی کہکشائوں کی تلاش میں ہے، الغرض اس کی جولانیٔ طبع اور مہم جوئی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ماضی میں بھی سرکش اقوام کو اپنی شان دکھاتا رہا ہے، فرعونِ مصر کو خدائی کا زعم تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(موسیٰ!) فرعون کے پاس جائو، بے شک اس نے سرکشی کی، آپ اس سے کہیں: گناہوں سے پاک ہونے کے متعلق تیری کیا رائے ہے اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں گا تاکہ تیرے دل میںاللہ کی خشیَت پیدا ہو، پھر انہوں نے اسے بڑی نشانی دکھائی، پس اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی، پھر اس نے پیٹھ پھیری اور ان کے خلاف کارروائی کی، اس نے لوگوں کو جمع کر کے اعلان کرتے ہوئے کہا: میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں، (النازعات: 17-24)‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جو تم چاہو (وہ نہیں ہوسکتا)، سوائے اس کے کہ اللہ جہانوں کا پروردگار چاہے، (التکویر:29)‘‘۔ رسول اللہؐ نے ایک طویل حدیث میں اللہ تعالیٰ کی شان یہ بتائی ہے: ’’جو اللہ چاہے وہ ہوجاتا ہے اور جو وہ نہ چاہے، وہ نہیں ہوسکتا، (سنن ابودائود)‘‘۔ آج کی سپر پاور کا سربراہ ٹرمپ بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ پوری دنیا کو نظر انداز کر کے جس کا چاہے معاشی بائیکاٹ کرے، محاصرہ کرے، اس کا ناطقہ بند کرے اور اسے دنیا سے الگ تھلگ کردے۔
ماضی میں بھی طاقت کے زعم میں مبتلا قوموں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیقت کا احساس دلانے کے لیے معمولی چیزوں سے سبق سکھایا: قومِ فرعون کے بارے میں فرمایا: ’’اور ان پر ہم نے طوفان بھیجا اور ٹِڈی دَل کے بادل اور جوئیں اور مینڈک اور خون بھیجے دراں حالیکہ یہ الگ الگ نشانیاں تھیں، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرموں کی قوم تھی، (الاعراف: 133)‘‘۔
تورات میں اس کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے: ’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا: اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا تاکہ پورے مصر میں انسان، حیوان اور کھیت کی سبزی پراولے گریں اور موسیٰ نے اپنی لاٹھی آسمان کی طرف اٹھائی اور خداوند نے بجلی کی کڑک اور اولے بھیجے اور آگ زمین تک آنے لگی اور خداوند نے مصر پر اولے برسائے، پس اولے گرے اور اولوں کے ساتھ آگ ملی ہوئی تھی اور وہ ایسے بھاری تھے کہ جب سے مصری قوم آباد ہوئی، ایسے اولے ملک میں کبھی نہیں پڑے تھے اور اولوں نے سارے مصر میں موجود ہر قسم کی مخلوق انسان، حیوان، سب کو ماردیا اور کھیتوں کی ساری سبزی کو بھی تاراج کردیا اور سب درختوں کو جڑ سے اکھیڑ ڈالا، (خروج، باب: 9، آیات: 22-25)‘‘۔ نیز لکھا: ’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہا: مصر پر اپنا ہاتھ بڑھا تاکہ ٹڈیاں مصر پر آئیں اور ہرقسم کی سبزی کو جو اس ملک میں اولوں سے بچ رہی ہے، چَٹ کر جائیں۔ پس موسیٰ نے مصر پر اپنی لاٹھی بڑھائی اور خداوند نے ایک دن رات مشرق کی جانب سے تیزآندھی چلائی اور صبح ہوتے ہوتے پُروا آندھی ٹڈیاں لے آئی اور ٹڈیاں سارے ملک پر چھا گئیں اور مصر کی حدود میں بسیرا کیا اور اُن کا دَل ایسا بھاری تھا کہ نہ تو ان سے پہلے ایسی ٹڈیاں کبھی آئیں اور نہ اُن کے بعد پھر آئیں گی، کیونکہ انہوں نے تمام روئے زمین کو ڈھانک لیا، ایسا کہ مُلک میں اندھیرا ہوگیا اور انہوں نے اس ملک میں ایک ایک سبزی اور درختوں کے پھلوں کو جو اولوں سے بچ گئے تھے، چٹ کرلیا اور مصر میں نہ کسی درخت اورنہ کسی کھیت کی ہریالی باقی رہی، (خروج، باب: 10، آیات: 12-15)‘‘۔ مزید لکھا ہے: ’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہا: ہارون سے کہہ! اپنی لاٹھی بڑھا کر زمین کی گرد کو مار تاکہ وہ تمام مصر میں جوئیں بن جائیں، انہوں نے ایسا ہی کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی لے کر اپنا ہاتھ بڑھایا، زمین کی گرد کو مارا تو انسانوں اور حیوانوں پر جوئیں چمٹ گئیں اور تمام مصر میں زمین کی ساری گرد جوئیں بن گئی، (خروج، باب: 10، آیات: 16-17)‘‘۔
پھر خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعون نے موسیٰؑ سے اس عذاب سے نجات کی التجا کی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جب اُن پر عذاب آجاتا تو کہتے: اے موسیٰ! آپ کے ربّ نے آپ سے جو وعدہ کیا ہے، اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کیجیے، اگر آپ نے ہم سے یہ عذاب دور کردیا تو ہم ہر صورت میں آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے، پھر جب ہم نے ان سے ایک مدتِ معینہ کے لیے عذاب دور کردیا، جس مدت تک پہنچنا ان کے لیے مقدر تھا، تو وہ فوراً اپنا عہد توڑ دیتے، (بنی اسرائیل: 134-135)‘‘۔
اعلانِ نبوت سے پہلے جب ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ مکۂ مکرمہ پر یلغار کی اور کعبۃ اللہ کو ڈھانے اور ویران کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا، تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے غول کے غول بھیجے جو اپنے منہ اور پنجوں میں کنکریاں لے کر اُن پر پھینک رہے تھے اور کہا جاتا ہے: جو کنکری جس کے لیے نشان زدہ تھی، وہ اُسی کو جاکر نشانہ بناتی اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا، تفصیل کے لیے سورۃ الفیل اور اس کی تفسیر ملاحظہ کیجیے۔
اللہ تعالیٰ نے جب منافقین کی مثالیں بیان کیں تو انہوں نے طعن کیا کہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بلند ہے کہ وہ مثالیں بیان کرے، سورۂ عنکبوت میں مشرکین کے عقائدِ باطلہ کے بودے پن کو مکڑی کے جالے سے تشبیہ دی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’بے شک اللہ (سمجھانے کے لیے) کسی بھی چیز کی مثال بیان کرنے کو ترک نہیں فرماتا، خواہ وہ مچھر ہو یا اُس سے بڑھ کر کوئی حقیر چیز، پھر جو ایمان لائے وہ جانتے ہیں کہ وہ مثال اُن کے ربّ کی طرف سے حق ہے، رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، تو وہ کہتے ہیں: ’’اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے، وہ اس مثال کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اسی کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور وہ صرف فاسقوں کو ہی اس سے گمراہی میں مبتلا کرتا ہے، (البقرہ: 26)‘‘۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ قومِ عاد کے بارے میں فرماتا ہے: ’’پس رہے عاد! تو وہ تُندو تیز گرجتی ہوئی آندھی سے ہلاک کیے گئے، جسے اللہ نے سات رات اور آٹھ دن تک لگا تار اُن پر مسلط کردیا، تو اے مخاطب! تو اُن لوگوں کو اُن دنوں اور راتوں میں یوں گرے ہوئے دیکھتا جیسے وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں، (الحاقّہ: 5-7)‘‘، امام ابن کثیر نمرود کے انجام کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’زید بن اسلم نے کہا: اللہ نے اس جابر بادشاہ کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جو اُسے اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا اور وہ انکار کردیتا، پھر دوبارہ فرشتے نے اُسے حکم دیا تو اُس نے انکار کیا، پھر سہ بارہ اس نے انکار کیا اور فرشتے سے کہا: تم اپنے لشکروں کو جمع کرو اور میں اپنے لشکروں کو جمع کرتا ہوں، پس نمرود نے طلوعِ آفتاب کے وقت اپنا لشکر جمع کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُس پر مکھیاں اور مچھر (وائرس) بھیجے کہ انہوں نے سورج کی روشنی کو بھی ڈھانک لیا، اللہ تعالیٰ نے اُن پر یہ عذاب ایسے مسلط کیا کہ اُن مچھروں نے اُن کا گوشت کھالیا، اُن کا خون چوس لیا اور انہیں ہڈیوں کا ڈھانچہ بناکر چھوڑ دیا۔ ایک مچھر نمرود کی ناک میں گھس گیا اور وہاں چار سوسال تک رہا، اللہ تعالیٰ اُسے مسلسل عذاب دیتا رہا، اس کے کرب کو دور کرنے کے لیے اُس کے سر پر اس پورے عرصے میں ضربیں لگائی جاتی رہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسی مچھر کے ذریعے اسے ہلاک کردیا، (قصص الانبیاء، ج:11، ص: 188)‘‘۔
آج کے انسان نے ایسے تباہ کن اسلحے ایجاد کیے ہیں کہ انہیں داغ کر زلزلے کی کیفیت برپا کردیں، زمین پر ہرقسم کی تنصیبات وعمارات کو برباد کردیں اور ہر قسم کی حیات کو فنا کردیں، راکٹ داغ کر خلائی جہاز کو چاند اور دیگر سیاروں پر پہنچادیں، لیکن اللہ تعالیٰ ہی درحقیقت قادرِ مطلق ہے، وہ اپنی شان دکھانے پر آئے تو نادیدہ حقیر سے مچھر جیسی معمولی مخلوق سے طاقت کے پندار میں مبتلا انسان کو بے بس کردے، اُسے کچھ سجھائی نہ دے، کوئی تدبیر کام نہ آئے اور ہرقسم کی نَخوت وغرور کو خاک میں ملادے، حتیٰ کہ سپر پاور کا سربراہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ اگر ہم اموات کی تعداد ایک لاکھ تک محدود کرلیں تو بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اس کی ٹاسک فورس یہ کہے کہ اموات کی تعداد ڈھائی لاکھ تک جاسکتی ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ ابابیل سے فیل اور مچھر سے نمرود کی فرعونی قوت کو بھی نابود کرسکتا ہے، پس یہ وقت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں، اس کے آگے سربسجود ہوں، توبہ واستغفار کریں، اس کی رحیمی اور کریمی کو اپنی جانب متوجہ کریں اور رسولِ مکرمؐ سے پیمانِ وفا کی تجدید کریں۔