امدادی فنڈز جا کہا ںرہے ہیں

320

کوئٹہ میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر اس جرم میں زبردست لاٹھی چارج کرکے انہیں حوالات میں ڈال کر ’’لاک ڈائون‘‘ کردیا گیا۔ وہ اپنے لیے کورونا سے بچاؤ کی حفاظتی کٹ کا مطالبہ کررہے تھے ۔ سندھ میں کسی بھی اسپتال میں حکومت نے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو عالمی معیار کے مطابق حفاظتی کٹ تو دور کی بات ہے ، ماسک اور دستانے بھی فراہم نہیں کیے ۔کچھ ایسی ہی صورتحال پورے ملک کی ہے ۔ایک طرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پورے ملک کا لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے کہ کورونا کو پھیلنے سے روکنا ہے ۔ دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ فرنٹ لائن پر جو ڈاکٹر اور پیرا میڈکس موجود ہیں ، انہیں ضروری سامان ہی مہیا نہیں کیا جارہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ ان کا صرف ایک مقصد ہے کہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ فنڈ حاصل کیے جائیں اور انہیں ہضم کرلیا جائے ۔ ڈاکٹروں سمیت سارے ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کی گئی ، وہ رقم آخر کہاں گئی ۔ چین سے مسلسل طبی سامان کی کھیپ آرہی ہے ، وہ آخر کہاں غائب ہوگئی ۔کورونا ٹیسٹ کرنے کے لیے چین سے کٹس آرہی ہیں مگر وہ ساری کی ساری نجی اسپتالوں کو مہیا کردی گئی ہیں جو یہ ٹیسٹ کرنے کی بھاری فیس وصول کررہے ہیں ۔ کراچی کے عباسی شہید اسپتال میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے ڈاکٹروں کے لیے خصوصی لباس میئر کراچی وسیم اختر کے حوالے کیے ۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلوچستان کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو خصوصی لباس اور ماسک مہیا کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔ یہ ذمہ داری نہ تو جماعت اسلامی کی ہے اور نہ ہی جنرل قمر جاوید باجوہ کی مگر پھر بھی وہ اپنے کام کے ساتھ یہ کام بھی خوشدلی سے کررہے ہیں ۔ یہ ذمہ داری وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کی ہے تو وہ صرف بیانات سے گزارا کررہے ہیں۔ خطیر فنڈز روزہی جاری ہوتے ہیں مگر جاتے کہاں ہیں ، اس سلسلے میں ایک دیانت دارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے ۔ کورونا سے بچاؤ کی یہ صورتحال ہے کہ کورونا کے وہ مریض جن کے ٹیسٹ مثبت آچکے ہیں ، ان تک کو اسپتال رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انہیں زبردستی گھروں کو روانہ کردیا جاتا ہے ۔ اب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ بتائیں کہ وہ کس طرح سے کورونا کو روکیں گے ۔ کورونا کے مریضوں کے ساتھ دن رات رہنے والے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف ہی کو کورونا سے بچانے کے لیے تیار نہیں ہیں ، تو وہ باقی کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں گے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہر سطح پر انسانوں کے بجائے گدھ حکمراں ہیں۔