نفرت کا آتش فشاں

378

بھارتیا جنتا پارٹی کے لیڈر اور راجیا سبھا کے رکن ڈاکٹر سبرامنین سوامی کی طرف سے وائس ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کا ایک مخصوص حصہ میڈیا میں گردش میں ہے جس میں انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ جس ملک میں مسلمان آبادی کا تناسب تیس فی صد سے تجاوز کرجاتا ہے وہ ملک خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا آئین مسلمانوں کو برابری کے حقوق نہیں دیتا کیونکہ کوئی بھی قانون مساوی حقوق صرف مساوی لوگوں کو دیتا ہے۔ سب لوگ برابر نہیں ہوتے۔ سبرامنین نے اپنے اس موقف کو نفرت انگیز ماننے سے صاف انکار کیا۔ سبرامنین سوامی کے اس بیان کا مفہوم یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان برابر نہیں بلکہ ہندو مسلمانوں سے برتر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہندو سماج میں سب ہندو بھی برابر نہیں کیونکہ ہندو مذہب کی کلید ہی ذات پات اور چھوت چھات کے نظام اور تعلیمات ہیں۔ ڈاکٹر سبرامنین سوامی کی بات ہند ومت کی تعلیمات کے مطابق درست ہے۔ ہندو مت کی بنیاد ہی برہمن، شودر، کھشتری اور ویش ذاتوں کی تقسیم پر ہے۔ اس تقسیم میں صرف برہمن ہی خدا کے فرستادہ برتر اور بالاہیں اعلیٰ نسب ہونے کی وجہ سے انہیں کو حکومت اور حاکمیت زیبا ہے۔ اس تقسیم میں شودر تو انسانوں کا وہ کمتر درجہ ہے جس میں انسانیت کی تذلیل اور تحقیر کے سوا کچھ بھی نہی یہ طبقہ اچھوت بھی کہلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان تاجروں، صوفیا اور مبلغین نے ہندوستان کے خانوں میں بٹے ہوئے انسانوں کے سامنے انسانی مساوات اور برابری کا تصور پیش کیا تو عزت وتکریم کے پیاسے ہندوستانی عوام جوق در جوق اس قافلے میں شامل ہوئے۔
سبرامنین سوامی کا شمار بھارت کے سینئر اور تعلیم یافتہ سیاست دانوں میں ہوتا ہے وہ کئی بار بھارتی ایوان بالا راجیا سبھا کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سبرامنین سوامی ہاروڈ یونیورسٹی کے ڈگری یافتہ ہیں۔ ان کا سماجی پس منظر اس لحاظ سے ٹھیٹھ ہندووانہ نہیں کہ ہاروڈ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ہی وہ ایک پارسی طالبہ رخسانہ کپاڈیا کے تیرِ نظر کا شکار ہوئے۔ دونوں خاندان اس بندھن کے مخالف تھے مگر دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ رخسانہ کپاڈیا کو بہت سے لوگ مسلمان سمجھتے ہیں۔ سبرامنین سوامی کی بیٹی بھارت کی مشہور اینکر اور صحافی سہاسنی حیدر ہیں۔ سہاسنی حیدر نے پانچ اگست کے بعد کشمیر کے حالات پر دی ہندو اخبار میں بہت جاندار رپورٹنگ کی۔ بھارت میں شہریت کے متنازع قانون پر بھی انہوں نے بہت سے کالم لکھ کر اس سوچ کا تیا پانچہ کر کے رکھ دیا۔ سہاسنی حیدر کی شادی بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر کے بیٹے ندیم حیدر سے ہوئی ہے۔ سہاسنی حیدر خود یہ تسلیم کرچکی ہیں کہ وہ مسلمان ہو چکی ہیں۔ سہاسنی حیدر کا یہ اعلان سبرامنین کی سیاست کے لیے مشکلات کا باعث بھی بنتا ہے۔ ابو ظہبی کی حکومت نے جب مودی کو ایوارڈ دیا تو سہاسنی حیدر نے عین الیکشن کے موقع پر مودی کو ایوارڈ دیے جانے کے فیصلے پر تنقید کی۔ جس پر بھارتی جنتا پارٹی کی ایک لیڈر ان پر مسلمان عورت کی تکلیف کی پھبتی کسی تو سبرامنین سوامی غصے میں آگئے اور اس بات کی تردید کرتے رہے کہ ان کی بیٹی نے اسلام قبول کیا ہے۔ یوں سبرامنین سوامی ایک دلچسپ اور نسبتاً کھلے سماجی کلچر میں جی رہے ہیں۔ وہ برطانیہ کے مشہور تعلیمی ادارے کے تعلیم یافتہ ہیں اور اگر ان کی سوچ میں نفرت اور حقارت کا یہ میعار ہے تو عام ہندو مذہبی تعلیمی اداروں سے علم حاصل کرنے والوں کے ذہنوں میں کیا کچھ ہوگا؟ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
سبرامنین کی سوچ ماضی میں بھی بھارت میں کمزور نہیں رہی۔ یہ سوچ قیام پاکستان سے پہلے بھی موجود تھی اور اسی سوچ نے برطانیہ کے تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل محمد علی جناح کو دو قومی نظریہ پیش کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اب یہی سوچ تر وتازہ ہو کر اس سوچ کو جائز اور صائب ثابت کر رہی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ سوچ ریاستی اداروں میںکیمو فلاج کیے ہوئے رہی مگرکانگریس کے زوال کے بعد یہ ملمع کاری ختم ہو رہی ہے اور بی جے پی اپنے اصل خیالات کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ یہ سوچ اب ریاستی اداروں پر کلی طور پر حاوی ہو چکی ہے اور اسی سے ایک نئی تباہی کے آثار واضح طور دکھائی دے رہے ہیں۔ سبرامنین سوامی کے اس انٹرویو پر وزیر اعظم عمران خان نے جائز طور پر ایک ٹویٹ کے ذریعے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی کے لیڈر اب کھلے بندوں نازی ازم کی زبان بولنے لگے ہیں۔ کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کو اس سوچ سے بچانا ہوگا۔ آج یہی سوچ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کو بلڈوز کرکے ان کا کچومر نکال رہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے پہلو میں نفرت کا ایک آتش فشاں جمع ہو رہا ہے۔ اس میں صرف نارنجی لباسوں والے جنونی اور ادتیا ناتھ جیسے سادھو ٹائپ لوگ ہی شامل نہیں بلکہ سبرامنین جیسے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں۔ کورونا کے نام پر بھارت میں گئو موتر پینے اور گوبر لیپنے کا جو تماشا شروع ہوا ہے ذہنی طور پر بھارت کو پتھر کے دور کی طرف لے جانے کا باعث بن رہی ہیں۔ مودی کی موم بتیاں جلانے کی اپیل کے جواب میں ہندوجنونیوں نے موم بتیوں کے آگے اپنے سروں پر تھال بجابجا اور برسا برسا کر بھارت کے تیزی سے غالب ہونے والے مائنڈ سیٹ کا معمولی سا تعارف کر ادیا ہے۔ دقیانوسیت اور نفرت کا یہ آتش فشاں اگر کسی روز پھٹ گیا تو شاید پھر اس لاوے سے واقعی اس سے کئی ہٹلر نمودار ہوں۔ دنیا نے بھارت کو پابندیوں اور بین الاقوامی قوانین اور فورمز کے تحت جوابدہی کے عمل سے نہ گزارا تو برصغیر کا مستقبل زیادہ اچھا دکھائی نہیں دیتا۔