کشمیریوں کے لیے ڈومیسائل کا نیا قانون

330

ہندو انتہا پسندی کے پیروکار مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے آٹھ ماہ بعد وہ بلی تھیلی سے باہر آنا شروع ہوگئی ہے جس مقصد کے لیے یہ سیاہ ترین قانون تمام تر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نافذ کیا گیا تھا۔ اہل کشمیر کی پیٹھ میں یہ تازہ خنجر کشمیریوں کے لیے ڈومیسائل کا نیا قانون نافذ کر نے کی صورت میں گھونپا گیا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت اب نہ صرف بھارت کے دیگر شہریوں کے لیے مقبوضہ جموں وکشمیر کی شہریت لینے کی راہ ہموار ہوگئی ہے بلکہ وہ یہاں جائداد بھی خرید سکیں گے۔ یاد رہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا تھا جبکہ 35اے کے تحت غیر کشمیری سے شادی کرنے والی خواتین جائداد کے حقوق سے محروم رہتی تھیں اور بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا اور مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی تھی لیکن مودی سرکار نے اس قانون کو ختم کر کے مقبوضہ وادی میں زیادہ سے زیادہ ہندو بستیاں آباد کر کے وہاں کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ تشکیل دیا ہے اور اسی مذموم منصوبے کے تحت مودی سرکار نے 5اگست 2019 کوآئین کی دفعہ 370 کوکالعدم قراردیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اب کشمیر کو دعوئوں کے برعکس عملی طور پربھارت کا اٹوٹ انگ بنادیا ہے۔ اس نئے قانون کے مطابق بھارتی شہری وہاں پر جائداد خرید سکیں گے اور انہیں شہریت بھی ملے گی۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ وادی میں شہریت کے لیے جو قواعد بنائے ہیں ان میں جو شخص پندرہ برس تک وادی میں مقیم رہا ہو یا پھر جس نے 7برس تک وہاں پر تعلیم حاصل کی ہو۔ دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات وہاں کے ادارے سے دیے ہوں وہ ڈومیسائل کا حقدار ہو گا۔ ایسا شخص سرکاری ملازمتوں کے ساتھ ساتھ غیر منقولہ جائداد کا مالک بھی بن سکتا ہے۔ اس میں مرکزی حکومت کے اہلکار‘ پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ کے اہلکار، سرکاری سیکٹر، بینکوں کے ملازمین‘ سینٹرل یونیورسٹیوں کے اہلکار اس کے علاوہ مرکزی تحقیقی اداروں کے وہ اہلکار جو دس برس وادی میں خدمات سرانجام دے چکے ہوں ان اہلکاروں کے بچے بھی رہائشیوں کے زمرے میں آئیں گے۔ ایسے افراد کو وادی کا ڈومیسائل دینے کے لیے مودی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے متعلق 29 قوانین منسوخ کر دیے ہیں جبکہ 109 قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔
پوری نام نہاد مہذب دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ کشمیری گزشتہ آٹھ ماہ سے گھروں میں محصور ہیں اور اب انہیں اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش بھی ایک ایسے وقت میں تیار کی گئی ہے جب ساری دنیا کی توجہ کورونا وباء کی جانب مبذول ہے۔ چانکیہ سیاست کے علمبردار بھارت کے موجودہ انتہا پسند حکمرانوں کی یہ گھنائونی حرکت محصور کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے لہٰذا اس حرکت کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہوگی۔ گوکہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ان سیاہ اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وبا پھیلنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں عالمی برادری کی توجہ زیادہ ہونی چاہیے۔ اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف مودی سرکار کشمیریوں کے خلاف اقدامات سے باز نہیں آ رہی ہے جو انسانیت کے دامن پر ایک بدنما دھبے سے کم نہیں ہے۔ پاکستان پہلے بھی عالمی برادری کی توجہ مودی کے متشددانہ اقدامات کی جانب مبذول کروا چکا ہے۔ اب ایک بار پھر عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے سے روکا جائے اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایسے میں جب دنیا بھر کے لوگ کورونا وائرس کے خوف اور محاصرے سے چند دنوں کے لاک ڈائون سے تنگ آ چکے ہیں توکیا ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کشمیری عوام جو گزشتہ آٹھ ماہ سے مودی سرکار کے انسانیت سوز لاک ڈائون کے شکار ہیں ان کی ذہنی اور جسمانی حالت کیا ہوگی۔ تعجب کا امر یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں کورونا وائرس جو ایک قدرتی آفت ہے کے باعث ہونے والی اموات کا رونا تو رویا جارہا ہے اور اس حوالے سے ساری دنیا پریشانی کی شکار نظر آتی ہے اور اس ضمن میں ہونے والے انسانی اور اقتصادی نقصان کا لمحہ بہ لمحہ ڈیٹا تو مرتب کیا جارہا ہے لیکن کشمیریوں کی حالت زار پر کوئی آنکھ پرنم نظر نہیں آتی ہے بلکہ مودی سرکار ہرگزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں کے دکھوں اور ان کے زخموں میں مسلسل اضافے پر تلی نظر آتی ہے جس کا اگر اب بھی عالمی برادری نے نوٹس نہ لیا تو اس جنت نظر وادی میں آگ اور خون کی وہ ندیاں بہہ سکتی ہیں جن کا تصور بھی چشم فلک نے نہیں کیا ہوگا لہٰذا عالمی برادری بالخصوص سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکا، روس، چین، فرانس اور برطانیہ کو فی الفور نہ صرف کشمیر سے کرفیو ہٹانے کے لیے بھارت کو مجبور کرنا چاہیے بلکہ 72سال سے زیر التواء چلے آنے والے ایک کروڑ کشمیریوں کے زندگی اور موت سے جڑے اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے بھی جلد از جلد عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔