جاوید الرحمن ترابی
آج پروفیسر الیف الدین ترابی بہت یاد آرہے ہیں۔ سردار قیوم اور سردار ابراہیم بھی یاد آرہے ہیں، غلام عباس بھی یاد آرہے ہیں، غرض سب یاد آرہے ہیں اور وہ بھی جنہیں پلندری میں ایک درخت کے ساتھ باندھ کر پھانسی دی گئی۔ آج کشمیر پر بہت ہی کڑا وقت ہے کشمیریوں پر اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ حقِ خود ارادیت مانگتے ہیں تو اقوامِ متحدہ ان مظالم پر کیوں خاموش ہے؟ انسانی حقوق کے دعویدار کہاں ہیں؟ کشمیری گزشتہ آٹھ ماہ سے محصور ہیں، لاکھوں بھارتی فوجیوں نے 80 لاکھ سے زائد کشمیریوں کو اگست 2019ء سے بندوق کے زور پر یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کیا بھارتی قوانین میں انسانی حقوق کی پامالی کی اجازت ہے اور کیا وہاں انسانوں کا اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا جرم ہے؟ بھارتی حکومت کو تو چھوڑیں، میرے یہ دو سوال بھارتی عدالتوں اور اقوامِ متحدہ سے ہیں۔ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں ڈومیسائل کے قانون میں ترمیم کرکے کشمیریوں پر ایک اور ظلم ڈھایا ہے۔ اس سے پہلے بھارتی حکومت نے شہریت قانون میں ترمیم کر کے کشمیریوں کو ان کی جائداد سے محروم کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے نہتے اور مظلوم کشمیریوں پر گزشتہ سات دہائیوں سے بھارتی مظالم جاری ہیں اور اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری بھارتی درندوں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ بھارتی درندہ صفت فوجیوں سے نہ خواتین کی عزت و آبرو محفوظ ہے نہ بوڑھوں اور بچوں کے لیے ان کے دلوں میں رحم کا کوئی جذبہ ہے، تاہم جب سے نریندر مودی کو دوسری بار اقتدار ملا ہے مظلوم کشمیریوں پر ظلم و جبر میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کشمیری حریت پسند رہنما یاسین ملک اور شبیر شاہ کے علاوہ متعدد کشمیری رہنما جیلوں میں بند ہیں، جہاں ان کے ساتھ نہایت انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ یاسین ملک کی طبیعت انتہائی تشویشناک ہے اس کے باوجود ان کو پابندِ سلاسل رکھا گیا ہے۔ آخر ان رہنمائوں کا جرم کیا ہے؟ بھارتی ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسانے ان کی آبادی میں اضافہ کرنے اور کشمیریوں کو ان کے حق سے محروم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کالے قانون کو نافذ کیا۔ یہاں بی جے پی کے رہنما سبرامنین سوامی کے بیان سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھارت میں اس وقت حکومت آر ایس ایس کی ہے۔ بی جے پی تو آر ایس ایس کی ترجمان ہے اور نریندر مودی ان کا سرغنہ۔ ان کے نظریات سے اختلاف کرتے ہوئے سبرا منین کی اپنی بیٹی سوہا نے گھر سے بھاگ کر اسلام قبول کیا اور سابق بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کے بیٹے سے شادی کر لی ہے جو سبرا منین کے منہ پر طمانچہ اور حق و سچ کی فتح کی زندہ مثال ہے۔ اسی سبرا منین سوامی نے حال میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کو روکنا ازحد ضروری ہے۔ اگر مسلمانوں کی آبادی 30فی صد سے بڑھ گئی تو بھارت کے لیے بہت خطرناک صورتحال بن جائے گی۔ یہی نقطہ نظر آر ایس ایس کا ہے جس پر مودی سرکار عمل پیرا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی اسی نظریہ پر عملدرآمد کے لیے نت نئے قوانین رائج کیے جا رہے ہیں۔
بھارتی حکومت نے ڈومیسائل سے متعلق قانون میں ترمیم کر کے کشمیریوں پر ایک اور حملہ کیا ہے۔ ڈومیسائل قانون میں ترمیم کے مطابق کشمیریوں کو صرف گریڈ چار تک کی سرکاری نوکریوں کے لیے درخواست دینے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ اس سے اوپر گریڈ کی سرکاری نوکریوں کا حق بھارتی باشندوں کو دیا گیا ہے۔ او آئی سی کے انسانی حقوق کے لیے آزاد مستقل کمیشن نے ایک بیان میں بھارتی حکومت کے اس اقدام کو او آئی سی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ پاکستان نے اس بارے میں نہ صرف سخت تشویش کا اظہار کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دنیا کو بھارت کی اس بدترین قانونی ترمیم سے آگاہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے بھی اس ترمیم کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے آواز اٹھائی۔ بین الاقوامی کمیونٹی، او آئی سی اور پاکستان کے دبائو پر بھارتی حکومت نے دو دن بعد ہی اس ترمیم کو واپس لے لیا۔ یہ سفارتی سطح پر پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ تاہم مودی سرکار نے ڈومیسائل سے متعلق وہ ترمیم واپس لے کر ایک نئی ترمیم قانون میں شامل کر دی ہے، جس کے مطابق جو بھی مرد یا خاتون گزشتہ پندرہ سال سے جموں و کشمیر میں رہائش پزیر ہو یا گزشتہ سات سال سے جموں کشمیر میں کسی یونیورسٹی کالج یا تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اور جموں و کشمیر یونین کی حدود میں دسویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات میں حصہ لے چکا ہے، وہ سرکاری ملازمت پر تقرر کا اہل ہوگا۔ اس نئی ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہاں کے کمشنر کے حکم سے جو بھی پناہ گزیں کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہوگا وہ بھی ڈومیسائل کا حامل تصور کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں جموں و کشمیر یا بھارت کے کسی بھی حصہ سے تعلق رکھنے والا ایسا شخص اور اس کی اولاد جو مقبوضہ کشمیر میں عرصہ دس سال سے سرکاری ملازمت کر رہا ہو یا کر چکا ہو، وہ بھی ڈومیسائل کا حامل تصور ہوگا۔
نئی ترمیم میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اعلیٰ عہدوں پر تقرر کے لیے ڈومیسائل سے متعلق کیا قواعد و ضوابط ہوں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو آٹھ ماہ سے یرغمال تو بنایا گیا ہے، لاک ڈائون کی خلاف ورزی کے نام پر کشمیریوں کو گولی مارنے کا حکم دیا گیا ہے، اس بہانے اب تک پندرہ بیگناہ کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ ادھر وادی میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ متاثرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اسی طرح اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن کشمیریوں کو بھارتی حکومت کی طرف سے نہ تو کورونا وائرس سے بچائو اور حفاظت کا طبی سامان مہیا کیا گیا ہے نہ قرنطینہ کا کوئی انتظام موجود ہے۔ حاصل بیان یہ ہے کہ بھارت سرکار کی طرف سے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے۔