عدلیہ کا پیلٹ گن پر پابندی سے انکار، کشمیر میں مایوسی!

410

غازی سہیل خان سرینگر کشمیر
گزشتہ ماہ جموں کشمیر ہائی کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے نے کشمیریوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں میں بے چینی پیدا کر دی۔ ہائی کورٹ نے پیلٹ گن پر پابندی لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک عرضی کو مسترد کر دیا۔ پیلٹ گن پر روک لگانے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ جب تک بے قابو بھیڑ کے ذریعے تشدد کیا جاتا ہے طاقت کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ جموں کشمیر ہائی کورٹ نے اس عرضی کو خارج کیا جس میں وادی کشمیر میں مظاہرین کی بھیڑ کو قابو کرنے کے لیے فورسز اہلکار پلیٹ گن کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ درخواست جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ذریعے 2016ء میں اس وقت دائر کی گئی تھی جب وادی میں معروف عسکری کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں فورسز اہلکاروں نے احتجاج کو قابو کرنے کے لیے پلیٹ گن کا استعمال کیا تھا جس کے سبب سیکڑوں لوگ زخمی ہوگئے تھے ان میں سے بیش تر کو اپنی بینائی مکمل یا جزوی طور پر کھونا پڑی تھی کے بعد یہ عرضی دائر کی گئی تھی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کس جگہ کس طرح سے طاقت کا استعمال کرنا ہے یہ اس جگہ کے انچارج شخص پر منحصر کرتا ہے، جو اس جگہ تعینات ہے جہاں حملہ ہو رہا ہے۔
پیلٹ گن کشمیر میں احتجاجی مظاہرین کے لیے استعمال میں اُس وقت لانے شروع ہو گئے جب 11؍ جون 2010ء کو طفیل متو راجوڑی کدل سرینگر میں آنسو گیس شل لگنے سے جاں بحق ہوا تب وہ کوچنگ کلاس جا رہا تھا اسی طرح سے تیرہ سالہ ایک اور طالب علم وامق فاروق جنوری 2010ء میں نزدیک سے ایک آنسو گس شل کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا تھا۔ ان اموات کے بعد نہ تھمنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے فورسز نے پیلٹ گن کا استعمال شروع کیا تھا۔ اس کے بعد زخمیوں اور بینائی سے محروم نوجوانوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پلٹ بندوق ایک بار چلانے سے اس میں سے 500 پیلٹ ایک بار آگے کی سمت میں نکل کربکھر جاتے ہیں جو کوئی بھی ان چھروں کی زد میں آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے۔ پیلٹ کے چھرے لگنے کے بعد انسان زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا درد محسوس کرتا ہے۔ پیلٹ چھرے دور سے انسان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن جب یہ 500میٹر کی دوری سے چلائے جائیں تو شدید نقصان پہنچاتا ہے خاص طور سے جب یہ انسان کے نازک حصوں پہ جا کے لگتے ہیں جن میں آنکھیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
سرکاری عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ پیلٹ گن غیر مہلک ہتھیار ہے باوجود اس کے 2010ء سے آج تک کشمیر میں ہزاروں نوجوان جُزوی اور ایک سو سے زائد نوجوان کلی طور اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور ابھی تک پیلٹ گن کی وجہ سے 14؍ افراد کی موت بھی واقع ہوئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق حکومت ہند اس ہتھیار کو پیلٹ گن کہتی ہے لیکن اصل میںیہ پمپ ایکشن شاٹ گن pump action shotgun)) ہے۔ ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ اکثر جنگلی شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہے یہ ہتھیار احتجاج کو قابو کرنے کے لیے نہیں بنائی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بار ہا حکومت ہند کو مشورہ دیا ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائدکرے۔ وادی کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے خواتین، بزرگ اور پیر وجواں سب متاثر ہوئے ہیں۔ جن میں اکثریت نوجوانون کی ہے۔ 2018ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچی ہبہ نثار پلیٹ لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھی، اسی طرح سے ایک اور بچی انشاء مشتاق بھی 2016ء میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوگئی۔ اسی طرح درجنوں نوجوان جو اب زندگی محتاجی کے عالم میں گُزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ شمالی کشمیر سے ایک پیلٹ متاثرہ نوجوان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر انتہائی افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ایک اُمید تھی وہ چلی گئی ہم چاہتے تھے کہ اب کوئی نوجوان کشمیر میں اندھا نہ ہو کوئی نوجوان زندگی بھر محتاج نہ ہو لیکن گزشتہ ہفتے کے عدالتی فیصلے نے ہم کو مزید مایوسی کا شکار بنا دیا‘‘۔ متاثرہ نوجوان کی دونوں آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی ہیں نے کہا کہ ’’جب کوئی نوجوان پیلٹ کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دیتا ہے تو وہ لازماً ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا، وہ محتاج ہوجاتا ہے، وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا جس کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے نوجوانو خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ اس نے بتایاکہ میرے ایک جاننے والے پیلٹ متاثرہ فرد نے گزشتہ سال خود کشی کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ اس کے گھر میں دوپہر کا کھانا نہیں تھا یہ نوجوان اس گھر کا واحد کفیل تھا جس کی اپنی زندگی اب دوسروں کی محتاج ہو گئی ہے اور دیگر افراد خانہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
کشمیر میں ایک تحقیق کے مطابق 85؍فی صد پیلٹ متاثرین نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس میں 25.79فی صد سماج میں احساس تنہائی کا شکار 15.79فی صد پوسٹ ٹرامیٹک اسٹرس ڈس آڈر 9.21فی صد شدید پریشانی کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے 380پیلٹ متاثرین کی تشخیص کے دوران پایا کہ 2016ء کے بعد پیلٹ متاثرین مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق بینائی سے محروم نوجوانوں میں ذہنی انتشار پیدا ہونے کے زیادہ اثرات پائے جاتے ہیں۔ پیلٹ متاثرین میں سے 92.92فی صد افراد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ تاہم جن 380؍پیلٹ متاثرین پر یہ تحقیق کی گئی ہے ان کا علاج متواتر گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں ہو رہا ہے گرچہ بہت سارے متاثرین نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بہت سارے متاثرین اپنے ذہنی امراض کو نہیں جانتے۔ تاہم بہت سارے مریضوں کی کونسلنگ اور دیگر ادویات کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان سب متاثرین کی ایک بار اسکرینگ کی جانی چاہے تا کہ ان کا صحیح طریقے سے علاج کیا جائے۔
مجموعی طور پر کشمیر میں ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عوام میں ناراضی کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ عدالت ہی ایک واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے اس مہلک ہتھیار سے نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا، لیکن اب اس عدالتی فیصلے نے وادی میں مایوسی پھیلا دی ہے اور پلیٹ متاثرین بھی اس فیصلیکو حق و انصاف کے منافی خیال کرتے ہیں۔