بھارت‘ اپنی حد میں رہے تو بہتر ہوگا

308

جاوید الرحمن ترابی

پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے بھارتی اقدامات سے متعلق وزیراعظم عمران خان کے مذمتی بیان پر بھارتی ردعمل مسترد کردیا ہے کہ بھارت روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے باضابطہ بیان جاری کیا گیا کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے امور کو اندرونی معاملہ قرار دینے کی رٹ اس کے جھوٹ کو سچ میں تبدیل نہیں کر سکتی نہ ہی اس سے بھارت کے غیرقانونی قبضہ کو قانونی حیثیت مل سکتی ہے۔ پاکستان کی قیادت اور عوام کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد کی حمایت سے کبھی دستبردار نہیں ہوںگے۔ ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے یہ بھی کہا کہ اس وقت جب دنیا کورونا کی وباء کا مقابلہ کررہی ہے‘ بھارت نے کشمیریوں کے لیے ڈومیسائل کے قانون میں تبدیلی کا اقدام اٹھایا ہے جو بی جے پی حکومت کے اخلاقی دیوالیہ پن کی ایک مثال ہے۔ بھارتی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل مکندنروا نے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزیوں اور جنگجوئوں کو اس پار دھکیلنے کوششیں ترک نہیں کرے گا تو اسے دندان شکن جواب دیا جائے گا اور بھارت کی فوج پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر کسی بھی کارروائی سے گریز نہیں کرے گی۔
پاکستان کی سلامتی اور کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ مودی سرکار کے ایماء پر بھارتی آرمی چیف بھی ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہیں جنہوں نے بڑ مارتے ہوئے گزشتہ سال 27 فروری کو پاک فضائیہ کے ہاتھوں اٹھائی گئی ہزیمت کو بھی فراموش کر دیا اور پاکستان کے اندر گھس کر کارروائی عمل میں لانے کا بلی کو چھیچھڑوں کے خواب جیسا خواب دیکھ کر اپنی ہذیانی کیفیت کا اظہار کیا۔ ایسی بڑ پلوامہ کے خودکش حملے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی ماری تھی جنہوں نے پاکستان کو اندر گھس کر مارنے کی بات کی جس کا پاکستان نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسکت جواب دیا کہ بھارت کی کسی بھی کارروائی کا بلا توقف فوری جواب دیا جائے گا۔ بلاشبہ ہندو بنیا کے یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں اس لیے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘ نریندر مودی کی طرح بھارتی آرمی چیف بھی اپنے دل کی حسرت پوری کرکے دیکھ لیں‘ بھارتی افواج کو ہماری فضائیہ کے 27 فروری 2019ء کے فوری جوابی وار سے بھی زیادہ کرارا جواب ملے گا۔ بے شک پاکستان امن کا داعی و خواست گار ہے مگر اس کی سلامتی کو چیلنج کرنے والی بھارتی یا کسی دوسرے ملک کی فوج پاک فوج کا جوابی وار سہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی اور اپنے زخم چاٹتے ہوئے ہزیمت اٹھاتی نظر آئے گی۔
جہاں تک کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی کا معاملہ ہے وہ اب اقوام عالم سے بھی چھپی نہیں رہی اور گزشتہ سال پانچ اگست کے بھارتی اقدامات کا جس کے تحت بھارتی آئین کی دفعات 370‘ اور 35اے کو حذف کرکے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی گئی‘ عالمی قیادتیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت انسانی حقوق کی عالمی اور علاقائی تنظیمیں سخت نوٹس لے چکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آج بھی بلاشبہ وہی حیثیت ہے جو یو این اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں میں متعین کی گئی ہے جن کے تحت کشمیریوں کو استصواب کا حق دیا گیا۔ چنانچہ مودی سرکار کی جانب سے کشمیر کو ہڑپ کرنے کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کیخلاف اسی تناظر میں سخت عالمی ردعمل سامنے آیا اور مودی سرکار کو کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادیں یاد دلائی گئیں۔
بھارت کی جانب سے پاکستان پر دراندازی کا الزام درحقیقت مقبوضہ وادی میں جاری بھارتی فوجوں کے مظالم سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے عائد کیا جاتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہی ہے کہ کشمیری عوام نے مقبوضہ وادی میں بھارتی تسلط کو آج تک تسلیم نہیں کیا اور انہوں نے گزشتہ 72 سال سے اس تسلط سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے جن پر بھارتی مظالم کی بھی انتہاء ہو چکی ہے اور وہ گزشتہ سال 5 اگست سے آج 247ویں روز بھی اپنے گھروں میں محصور ہو کر بھارتی لاک ڈائون کا سامنا اور بھارتی سیکورٹی فورسز کے مظالم برداشت کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کے سنگین خطرات میں بھی مودی سرکار اپنی جنونیت اور توسیع پسندانہ عزائم سے باز نہیں آرہی اور کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی گھنائونی سازشوں میں مصروف ہے جبکہ لاک ڈائون کے باوجود بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی میں سرچ آپریشن جاری رکھا ہوا ہے جس کے دوران کشمیریوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے۔ پاکستان نے اسی تناظر میں اقوام عالم کو بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھایا ہے۔ اب عالمی قیادتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرے کی گھنٹی بجانے والے بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور مقبوضہ کشمیر جاری میں اس کے مظالم اور بھارتی آرمی چیف کی گیدڑ بھبکی کا بھی سخت نوٹس لیں۔