حکمران، ذرائع ابلاغ اور قومی کردار

459

 بڑے رہنمائوں کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ بھیڑ کو قوم بنا دیتے ہیں۔ اس کے برعکس چھوٹے رہنمائوں کی ایک شناخت یہ ہوتی ہے کہ وہ قوم کو بھی بھیڑ میں ڈھال دیتے ہیں۔ قائداعظم بڑے رہنما تھے انہوں نے برصغیر کے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ایک قوم بنادیا۔ اس کے برعکس جرنیلوں، شریفوں اور بھٹوئوں کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قوم کو ایک ہجوم میں تبدیل کیا ہوا ہے۔
اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ حکمران ہی نہیں ذرائع ابلاغ بھی لاک ڈائون کے دوران یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگ بازاروں میں گھوم رہے ہیں، گلی محلوں میں گشت کررہے ہیں، حتیٰ کہ بعض مقامات پر لوگ پکنک مناتے ہوئے بھی نظر آئے۔ اس صورتِ حال میں حکمرانوں نے دھمکی دی کہ عوام تعاون نہیں کریں گے تو وہ کرفیو لگادیں گے۔ مگر عوام پر کرفیو کی دھمکی کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔
ہم نے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے جلسوں میں کئی بار یہ دیکھا ہے کہ ان جماعتوں کے رہنما تقریریں کررہے ہیں اور عوام جلسے میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے بات کررہے ہیں۔ آپ نے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی دعوتوں میں یہ منظر بھی کئی بار دیکھا ہوگا کہ ان جماعتوں کے کارکنان بریانی اور قورمے کے تھالوں پہ اس طرح ٹوٹ پڑے جس طرح کوئی دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ دانش ور اور کالم نگار اکثر اس بات کی شکایت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہمارے لوگوں میں نظم و ضبط نام کو نہیں۔ اس کا سب سے اہم مظہر ہمارا ٹریفک ہے۔ عوام ٹریفک کے قوانین کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔
پاکستانی قوم میں واقعتاً نظم و ضبط موجود نہیں۔ مگر پاکستان کے حکمران اور ذرائع ابلاغ اس سلسلے میں عوام پر اعتراض کرتے ہوئے شیطان لگتے ہیں۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ عوام حکمرانوں کا عکس ہوتے ہیں۔ حکمران ایماندار ہوں تو عوام بھی ایماندار ہوجاتے ہیں۔ حکمران علم سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں تو عوام بھی علم سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ حکمران کرپٹ ہوں تو عوام میں بھی کرپشن پھیل جاتی ہے۔ حکمران ضابطوں کو پھلانگنے والے ہوں تو عوام بھی ضابطوں کو توڑنے والے بن جاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ جرنیلوں نے ہمیشہ آئین کو توڑا ہے اور اس کی تذلیل کی ہے۔ بھٹو اور نواز شریف نے آئین توڑا تو نہیں مگر انہیں آئین سے کھیلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اتنی لوٹ مار کی ہے کہ ملک کے ہر قانون کا جنازہ نکل گیا ہے۔ حکمرانوں کی ان حرام کاریوں کی اطلاعات عوام تک پہنچتی رہتی ہیں اور عوام کے دلوں سے آئین، قانون، ضابطے اور نظم و ضبط کی محبت نکلتی رہتی ہے۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے بینکوں کے چار سو ارب روپے کے قرضے معاف کرائے اور بینکوں کے قوانین کی دھجیاں اڑادیں۔ ملک کی ایک عدالت نے جنرل پرویز کو سزائے موت دی تو اسٹیبلشمنٹ نے ایک دوسری عدالت کے ذریعے جنرل کی سزا کو ختم کرالیا۔ سوال یہ ہے کہ طاقت کے اس ’’کھیل‘‘ سے عوام کو کیا پیغام ملا ہوگا؟ یہ کہ قانون بڑی ’’مقدس چیز‘‘ ہے یا یہ کہ وطن عزیز میں قانون بھی طاقت ور لوگوں کے اشاروں پر ناچنے والی شے ہے؟
حکمران اور ذرائع ابلاغ اس لیے بھی عوام کو نظم و ضبط کی ’’تلقین‘‘ کرتے ہوئے زہر لگتے ہیں کہ حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ نے آج تک پاکستان کے عوام کی روحانی و اخلاقی نیز علمی و تہذیبی تعلیم و تربیت کے لیے کچھ نہیں کیا۔ حکمران اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصاب کے ذریعے قوم کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں مگر ہمارے تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم و تربیت کا کوئی اہتمام ہی نہیں ہوتا۔ جہاں تک پاکستان کے اخبارات بالخصوص ٹیلی وژن چینلز کا تعلق ہے تو ان میں مغربیت کا دریا بہہ رہا ہے۔ عریانی و فحاشی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ پاکستان کا کوئی ایک چینل نہیں ہر چینل اپنے مواد کے ذریعے اسلام دشمنی پر تلا ہوا ہے۔ ہمارے کسی چینل پر نہ بچوں کے لیے کوئی
خصوصی پروگرام ہے نہ نوجوانوں کے لیے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ نے آج تک اداکاروں، گلوکاروں، ماڈلز، کرپٹ سیاست دانوں اور نااہل جرنیلوں کو قوم کا ہیرو بنا کر پیش کیا ہے۔ انہوں نے کبھی متقی، صاحب علم اور صاحب کردار انسانوں کو ہیرو بنا کر پیش نہیں کیا۔ چناںچہ ملک کی نئی نسلیں اعلیٰ اقدار کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتیں۔ انہیں صرف دولت، طاقت اور شہرت اپیل کرتی ہے۔ اس لیے کہ ہمارے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ نے دولت، طاقت اور شہرت کی اقدار ہی کو معاشرے میں فروغ دیا ہے۔
یہ کل ہی کی بات ہے کہ ملک کے کئی بڑے چینلوں نے عورت مارچ پر پورے دن کی نشریات کا اہتمام کیا۔ یہ وہی مارچ تھا جس کی علامت ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ تھا۔ اب دنیا اور ملک میں کورونا کی وبا کو پھیلے ہوئے عرصہ ہوگیا مگر آج تک ہمارے کسی بڑے چینل کو اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کورونا کے حوالے سے توبہ و استغفار پر مبنی پورے دن کی نشریات کا اہتمام کرتا۔ کیا وبائوں کا ایک تناظر مذہبی نہیں ہے؟ کیا قرآن نے قوموں پر عذاب کے قصے بیان نہیں کیے؟ کیا ہمارے چینلوں کے لیے کورونا کا مذہبی تناظر عورت مارچ کے برابر بھی اہم نہیں؟ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے چینلوں کی جڑیں کن اقدار میں پیوست ہیں۔
فرد یا قوم کا ’’کردار‘‘ ایک دن میں پیدا نہیں ہوتا۔ میر نے کہا ہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
انسان کا کردار بنی بنائی چیز نہیں ہوتا۔ اس کی تشکیل میں فرد ہی کی نہیں قوموں کی بھی زندگیاں کھپ جاتی ہیں۔ اقبال ہمارے بڑے لوگوں میں سے ایک ہیں مگر اقبال کو اقبال بننے میں بڑی مشقت سے گزرنا پڑا۔ اس مشقت میں وقت بھی کافی صرف ہوا۔ اقبال اپنے آغاز میں قوم پرست تھے۔ وہ رام کو امام ہند کہتے تھے۔ خاک وطن کا ہر ذرہ انہیں دیوتا نظر آتا تھا لیکن اقبال کی شاعری میں ایک وقت وہ آیا جب ان کی پوری شاعری اسلام کی روح اور اس کے تہذیبی سانچے میں جذب ہوگئی۔ آخری وقت میں اقبال کا یہ حال تھا کہ وہ قرآن کے سوا کچھ اور نہیں پڑھتے تھے اور ہر مسئلے کے حل کے لیے قرآن کھول لیتے تھے۔ محمد علی جناح بھی ابتدا میں قوم پرست تھے۔ چناںچہ سروجنی نائڈو کو وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر نظر آتے تھے۔ قائد اعظم کانگریس کے رہنما تھے مگر پھر محمد علی جناح قائد اعظم بن کر اُبھرے۔ انہیں دو قومی نظریے کا سب سے بڑا علمبردار قرار دیا گیا۔ مگر اپنے مرکز سے وابستہ ہونے میں قائد اعظم کو بہت وقت لگا۔
قوموں کے اندر کردار اور بھی مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔ چینی قوم افیون کی عادی تھی۔ اس کا کوئی حال تھا نہ اس کا کوئی مستقبل۔ مگر مائو کی فکر، کردار اور جدوجہد نے افیون کی عادی قوم کو عالمی اسٹیج پر ایک ’’انقلابی قوم‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ مائو کی انقلابی جدوجہد کا آغاز 1946ء سے ہوا۔ اگرچہ چین میں انقلاب 1949ء میں آگیا تھا مگر 1966ء میں چین کے اندر ثقافتی انقلاب کا عمل شروع ہوگیا جو 1976ء میں جا کر مکمل ہوا۔ اسی طرح چینی انقلاب 27 سال میں ’’قومی کردار‘‘ پیدا کرسکا۔ 1980ء کی دہائی میں جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد ہورہا تھا کئی اہم امریکی شخصیات پاکستان آئیں۔ ان میں ایک صاحب ہالی ووڈ کے اداکار کرک ڈگلس بھی تھے۔ جاوید جبار نے ان سے پی ٹی وی پر ایک انٹرویو کیا۔ جاوید جبار نے کرک سے پوچھا کہ امریکا کی پالیسیوں میں اتنے تضادات کیوں ہیں۔ کرک ڈگلس نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا ایک ’’نیا ملک‘‘ ہے۔ کرک ڈگلس کی رائے میں ایک جھوٹ موجود تھا مگر اس میں ایک ’’صداقت‘‘ بھی تھی۔ امریکا کی عمر صرف ڈھائی سو سال ہے اور بسا اوقات اتنی کم مدت میں واقعتاً قومی کردار پیدا نہیں ہوپاتا۔
بعض لوگ پاکستانی قوم کی عمر 1947ء سے شروع کرتے ہیں مگر برصغیر میں مسلمانوں کی عمر ایک ہزار سال ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قوم میں ’’کردار‘‘ پیدا کرنا رتی برابر بھی مشکل نہیں تھا۔ پاکستانی قوم کی پشت پر اسلام کھڑا تھا۔ ایک ہزار سال کا تہذیبی اور تاریخی تجربہ کھڑا تھا۔ پاکستان 20 ویں صدی کا ایک معجزہ تھا۔
پاکستان ایک بہت بڑا آدرش یا Ideal ت مگر پاکستان کے ذلت مآب حکمران طبقے نے ان میں سے کسی چیز سے استفادہ نہ کیا۔ انسانوں اور قوموں کی زندگی میں دشمن کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ انسان اور قوم بسا اوقات دشمن کی وجہ سے بیدار اور متحرک ہوتی ہے۔ پاکستان کو بھارت جیسا خبیث دشمن ملا تھا۔ مگر ہمارے حکمران طبقے نے بھارت جیسے دشمن کو بھی قوت محرکہ یا Motivational force نہ بنایا۔ 1971ء میں پاکستان آدھا رہ گیا مگر ہمارے حکمران طبقے نے اس سانحے سے بھی سیکھ کر نہ دیا۔ نتیجہ یہ کہ پاکستانی قوم ابھی تک ایک قوم بن سکی نہ کوئی قومی کردار پیدا کرسکی۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں پنجابیوں، مہاجروں، سندھیوں، پشتونوں اور بلوچوں کی تو بہتات ہے مگر پاکستان میں ’’پاکستانی‘‘ نایاب ہیں۔