ملاقات اور مجلس کے اآداب

324

مولانا مجیب الرحمن انڑ

٭ملاقات کے وقت مسکراتے چہرے سے استقبال کیجیے، مسرت ومحبت کا اظہار کیجیے اور سلام میں پہل کیجیے، اس کا بڑا ثواب ہے۔
٭سلام اور دعا کے لیے اِدھر اْدھر کے الفاظ استعمال نہ کیجیے، نبی اکرمؐ کے بتائے ہوئے الفاظ ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ‘‘ استعمال کیجیے، پھر موقع ہو تو مصافحہ کیجیے، مزاج پوچھیے اور مناسب ہو تو گھر والوں کی خیریت بھی معلوم کیجیے، نبیؐ کے بتائے ہوئے الفاظ ’’السلام علیکم‘‘ بہت جامع ہیں، اس میں دین ودنیا کی تمام سلامتیاں اور ہر طرح کی خیر وعافیت شامل ہے۔ یہ بھی خیال رکھیے کہ نبی اکرمؐ مصافحہ کرتے وقت اپنا ہاتھ فوراً چھڑانے کی کوشش نہ کرتے، انتظار فرماتے کہ دوسرا شخص خود ہی ہاتھ چھوڑ دے۔
٭جب کسی سے ملنے جائیے تو صاف ستھرے کپڑے پہن کر جائیے، میلے کچیلے کپڑوں میں نہ جائیے اور نہ اس نیت سے جائیے کہ آپ اپنے بیش بہا لباس سے اس پر اپنا رعب قائم کریں۔
٭جب کسی سے ملاقات کا ارادہ ہو تو پہلے اس سے وقت لیجیے، یوں ہی وقت بے وقت کسی کے یہاں جانا مناسب نہیں، اس سے دوسروں کا وقت بھی خراب ہوتا ہے اور ملاقات کرنے والا بھی بعض اوقات نظروں سے گر جاتا ہے۔
٭جب کوئی آپ کے یہاں ملنے آئے تو محبت آمیز مسکراہٹ سے استقبال کیجیے، عزت سے بٹھائیے اور حسب موقع مناسب خاطر تواضع بھی کیجیے۔
٭کسی کے پاس جائیے تو کام کی باتیں کیجیے، بے کار باتیں کرکے اس کا اور اپنا وقت ضائع نہ کیجیے، ورنہ آپ کا لوگوں کے یہاں جانا اور بیٹھنا ان کو کھلنے لگے گا۔
٭کسی کے یہاں جائیے تو دروازے پر اجازت لیجیے اور اجازت ملنے پر السلام علیکم کہہ کر اندر جائیے اور اگر تین بار السلام علیکم کہنے کے بعد کوئی جواب نہ ملے تو خوشی خوشی لوٹ آئیے۔
٭کسی کے یہاں جاتے وقت کبھی کبھی مناسب تحفہ بھی ساتھ لیتے جائیے، تحفہ دینے دلانے سے محبت بڑھتی ہے۔
٭جب کوئی ضرورت مند آپ سے ملنے آئے تو جہاں تک امکان میں ہو، اس کی ضرورت پوری کیجیے، سفارش کی درخواست کرے تو سفارش کر دیجیے، خواہ مخواہ اس کو امیدوار نہ بنائے رکھیے۔
٭آپ کسی کے یہاں اپنی ضرورت سے جائیں تو مہذب انداز میں اپنی ضرورت بیان کر دیجیے، پوری ہوجائے تو شکریہ ادا کیجیے، نہ ہوسکے تو سلام کرکے خوش خوش لوٹ آئیے۔
٭ہمیشہ یہی خواہش نہ رکھیے کہ لوگ آپ سے ملنے آئیں، خود بھی دوسروں سے ملنے جائیے، آپس میں میل جول بڑھانا اور ایک دوسرے کے کام آنا بڑی پسندیدہ بات ہے، مگر خیال رکھیے کہ مومنوں کا میل جول ہمیشہ نیک مقاصد کے لیے ہوتا ہے۔
٭ملاقات کے وقت اگر آپ دیکھیں کہ ملنے والے کے چہرے یا داڑھی یا کپڑوں پر کوئی تنکا یا کوئی اور چیز ہے تو ہٹا دیجیے او راگر کوئی دوسرا آپ کے ساتھ یہ حسن سلوک کرے تو شکریہ ادا کیجیے اور یہ دعا دیجیے: ’’مسح اللہ عنک ماتکرہ‘‘ اللہ آپ کو ان چیزوں سے دور فرمائے جو آپ کو ناگوار ہیں۔
٭رات کے وقت کسی کے یہاں جانے کی ضرورت ہو تو اس کے آرام کا لحاظ رکھیے، زیادہ دیر نہ بیٹھیی اور اگر جانے کے بعد اندازہ ہو کہ وہ سوگیا ہے تو بغیر کسی کڑھن کے خوش خوش واپس آجائیے۔
ہر محفل اور ہر مجلس اور زندگی گزارنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں، انسان اگر ان آداب کی رعایت کرکے زندگی بسر کرے تو معاشرے میں پھیلنے والے بہت سے امراض کا سدباب کیا جاسکتا ہے، من جملہ آداب میں سے مجلس کے آداب درج کیے جارہے ہیں تاکہ یہ مجالس سنت نبویؐ کے مطابق ہوں۔
٭اچھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی کوشش کیجیے۔
٭مجلس میں جو گفتگو ہو رہی ہو، اس میں حصہ لیجیے، مجلس کی گفتگو میں شامل نہ ہونا اور ماتھے پر شکنیں ڈالے بیٹھے رہنا غرور کی علامت ہے، مجلس میں صحابہ کرامؓ جس گفتگو میں مصروف ہوتے، نبی اکرمؐ بھی اس گفتگو میں مصروف رہتے، مجلس میں غمگین اور مضمحل ہو کر نہ بیٹھیے، مسکراتے چہرے کے ساتھ ہشاش بشاش ہو کر بیٹھیے۔
٭کوشش کیجیے کہ آپ کی کوئی مجلس خدا اور آخرت کے ذکر سے خالی نہ رہے او رجب آپ محسو س کریں کہ حاضرین دینی گفتگو میں دلچسپی نہیں لے رہے تو گفتگو کا رخ کسی دنیوی مسئلے کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں۔
٭مجلس میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جائیے، مجمع کو چیرتے اور کودتے پھلانگتے آگے جانے کی کوشش نہ کیجیے، ایسا کرنے سے پہلے آنے والوں اور بیٹھنے والوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور ایسا کرنے والوں میں بھی اپنی بڑائی کا احساس اور غرور پیدا ہوتا ہے۔
٭مجلس میں سے کسی بیٹھے ہوئے آدمی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کیجیے، یہ انتہائی بری عادت ہے، اس سے دوسروں کے دل میں نفرت اور کدورت پیدا ہوتی ہے او راپنے کو بڑا سمجھنے اور اہمیت جتانے کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
٭اگر مجلس میں لوگ گھیرا ڈا لے بیٹھے ہوں تو ان کے بیچ میں نہ بیٹھیے، یہ سخت قسم کی بدتمیزی او رمسخرہ پن ہے۔ نبی اکرمؐ نے ایسا کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔
٭مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے اگر کوئی کسی ضرورت سے اٹھ کر چلا جائے تو اس کی جگہ پر قبضہ نہ کیجیے، اس کی جگہ محفوظ رکھیے۔ ہاں! اگر معلوم ہو جائے کہ وہ شخص اب واپس نہیں آئے گا تو پھر بے تکلف اس جگہ پر بیٹھ سکتے ہیں۔
٭اگر مجلس میں دو آدمی ایک دوسرے کے قریب بیٹھ گئے ہوں تو ان سے اجازت لیے بغیر ان کو الگ نہ کیجیے، کیوں کہ آپس کی بے تکلفی یا محبت یا کسی اور مصلحت سے قریب بیٹھے ہوں گے اور ان کو الگ الگ کرنے سے ان کے دل کو تکلیف ہوگی۔
٭مجلس کی کسی امتیازی جگہ پر بیٹھنے سے پرہیز کیجیے، کسی کے یہاں جائیں تو وہاں بھی اس کی معزز جگہ پر بیٹھنے کی کوشش نہ کیجیے۔ ہاں! اگر وہ خود ہی اصرار کرے تو بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں اور مجلس میں ہمیشہ ادب سے بیٹھیے، پاؤں پھیلا کر یا پنڈلیاں کھول کر نہ بیٹھیے۔
٭یہ کوشش نہ کیجیے کہ ہر حال میں صدر کے قریب ہی بیٹھیں، بلکہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جائیے اور اس طرح بیٹھیے کہ بعد میں آنے والوں کو جگہ ملنے اور بیٹھنے میں کوئی زحمت نہ ہو اور جب لوگ زیادہ آجائیں تو سمٹ کر بیٹھ جائیے اور آنے والوں کو کشادہ دلی سے جگہ دے دیجیے۔
٭مجلس میں کسی کے سامنے یا ارد گرد کھڑا نہیں رہنا چاہیے، تعظیم کا یہ طریقہ اسلام کے خلاف ہے۔
٭مجلس میں دو آدمی آپس میں چپکے چپکے باتیں نہ کریں، اس سے دوسروں میں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنے راز کی باتوں میں شریک کرنے کے قابل نہیں سمجھا اور یہ بدگمانی بھی ہوتی ہے کہ شاید ہمارے بارے میں کوئی بات کہہ رہے ہوں۔
٭مجلس میں جو کچھ کہنا ہو صدر مجلس سے اجازت لے کر کہیے اور گفتگو یا سوال وجواب میں ایسا انداز اختیار نہ کیجیے کہ آپ ہی صدر مجلس معلوم ہونے لگیں، یہ خود نمائی بھی ہے اور صدر مجلس کے ساتھ زیادتی بھی۔
٭ایک وقت میں ایک ہی شخص کو بولنا چاہیے اور ہر شخص کو اس کی بات غور سے سننا چاہیے، اپنی بات کہنے کے لیے ایسی بے تابی نہیں ہونی چاہیے کہ سب بیک وقت بولنے لگیں اور مجلس میں ہربونگ ہونے لگے۔
٭مجلس میں جو باتیں راز کی ہوں ان کو جگہ جگہ بیان نہیں کرنا چاہیے، مجلس کا یہ حق ہے کہ اس کے رازوں کی حفاظت کی جائے۔
٭مجلس میں جس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہو، جب تک اس کے بارے میں کچھ طے نہ ہو جائے، دوسرا موضوع نہ چھیڑیے اور نہ دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کیجیے، اگر کبھی کوئی ضرورت پیش آجائے کہ آپ کا فوراً بولنا ضروری ہو تو بولنے والے سے پہلے اجازت لے لیجیے۔
٭صدر مجلس کو مسائل پر گفتگو کرتے وقت سارے حاضرین کی طرف توجہ رکھنی چاہیے اور دائیں بائیں ہر طرف رخ پھیر پھیر کر بات کرنی چاہیے اور آزادی کے ساتھ ہر ایک کو اظہار خیال کا موقع دینا چاہیے۔
٭مجلس برخاست ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھیے او رپھر مجلس برخاست کیجیے:
’’خدایا! تو ہمیں اپنا خوف اور اپنی خشیت نصیب کر، جو ہمارے اور معصیت کے درمیان آڑ بن جائے اور وہ فرماں برداری دے جو ہمیں تیری جنت میں پہنچا دے اور ہمیں وہ پختہ یقین عطا فرما جس سے ہمارے لیے دنیا کے نقصانات ہیچ ہو جائیں۔
خدایا! تو جب تک ہمیں زندہ رکھے ہمیں ہمارے سننے دیکھنے کی قوتوں اور جسمانی توانائیوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے اور اس خیر کو ہمارے بعد بھی برقرار رکھ۔ اور جو ہم پر ظلم کرے اس سے ہمارا بدلہ لے اور جو ہم سے دشمنی کرے اس پر ہمیں غلبہ عطا فرما اور ہمیں دین کی آزمائش میں مبتلا نہ کر اور دنیا کو ہمارا مقصود اعظم نہ بنا اور نہ دنیا کو ہمارے علم وبصیرت کی انتہا ٹھہرا اور نہ ہم پر اس شخص کو قابو دے جو ہم پر رحم نہ کرے‘‘۔