افکار سید ابو لاعلی مودودیؒ

144

رات کی عبادت
رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اْس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے، اس لیے یہ فعل ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کے دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ اِس طریقے سے جو شخص اپنے آپ پر قابو پا لے اور اپنے جسم و ذہن پر تسلّط حاصل کر کے اپنی اِس طاقت کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے پر قادر ہو جائے وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ دینِ حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کے اِن اوقات میں بندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہیں ہوتا اور اس حالت میں آدمی جو کچھ زبان سے کہتا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر عبادت کے لیے اٹھے گا وہ لامحالہ اخلاص ہی کی بنا پر ایسا کرے گا، اس میں ریا کاری کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی بہ نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے اس لیے اس کا التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے، وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو زیادہ استقامت کے ساتھ برداشت کر سکتا ہے۔ (تفہیم القرآن، سورۂ المزمل حاشیہ نمبر7)
٭…٭…٭
اللہ کی کبریائی
یہ ایک نبی کا اولین کام ہے جسے اِس دنیا میں اْسے انجا م دینا ہوتا ہے۔ اْس کا پہلا کام ہی یہ ہے کہ جاہل انسان یہاں جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں اْن سب کو نفی کر دے اور ہانکے پکارے دنیا بھر میں یہ اعلان کر دے کہ اِس کائنات میں بڑائی ایک خدا کے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر کو سب الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر کے اعلان سے ہوتی ہے۔ نماز میں بھی مسلمان تکبیر کے الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر کہہ کر اٹھتا اور بیٹھتا ہے۔ جانور کے گلے پر چھری بھی پھیرتا ہے تو بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر پھیرتا ہے۔ نعرہ تکبیر آج ساری دنیا میں مسلمان کا سب سے زیادہ نمایاں امتیار ی شعار ہے کیونکہ اس امت کے نبیؐ نے اپنا کام ہی اللہ کی تکبیر سے شروع کیا تھا۔
اس مقام پر ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جیسا کہ اِن آیات کی شانِ نزول سے معلوم ہوچکا ہے، یہ پہلا موقع تھا جب رسولؐ کو نبّوت کا عظیم الشان فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور یہ بات ظاہر تھی کہ جس شہر اور معاشرے میں یہ مشن لے کر اٹھنے کا آپ کو حکم دیا جا رہا تھا وہ شرک کا گڑھ تھا۔ بات صرف اتنی ہی نہ تھی کہ وہاں کے لوگ عام عربوں کی طرح مشرک تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ مکہ معظمہ مشرکین عرب کا سب سے بڑا تیرتھ بنا ہوا تھا اور قریش کے لوگ اْس کے مجاور تھے۔ ایسی جگہ کسی شخص کا تن تنہا اٹھنا اور شرک کے مقابلے میں توحید کا علم بلند کر دینا بڑے جان جوکھو کا کام تھا۔ اسی لیے ’’اٹھو اور خبر دار کرو‘‘ کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ ’’اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو‘‘ اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ جو بڑی بڑی ہولناک طاقتیں اِس کام میں تمہیں مزاحم نظر آتی ہیں ان کی ذرا پروا نہ کرو اور صاف صاف کہہ دو کہ میرا رب اْن سب سے زیادہ بڑا ہے جو میری اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑی سے بڑی ہمت افزائی ہے جو اللہ کا کام شروع کرنے والے کسی شخص کی کی جاسکتی ہے۔ اللہ کی کبریائی کا نقش جس آدمی کے دل پر گہرا جما ہوا ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ساری دنیا سے لڑ جانے میں بھی ذرّہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے گا۔ (تفہیم القرآن، سورۃ المدثر حاشیہ نمبر3)