صرف قرض نہیں‘ سود کتنا ادا کیا گیا؟

751

پاکستان کی عمر اس وقت ستر برس سے زائد ہے‘ ستر برس کی یہ تاریخ کئی بابر رکھتی ہے ہمیں کامیابیاں بھی ملی ہیں اور پریشانیاں بھی ملی ہیں‘ جب ملک بنا تو ہمارے پاس تین کارخانے تھے‘ مگر کارخانے دار منافع پر نظر کم رکھتے تھے اور فلاحی منصوبوں میں شریک ہوتے تھے۔ ہمارے ہاں کارخانے بڑھ گئے اور فلاحی کام محدود ہوگئے۔ جب پاکستان بنا تو ایک ہزار کلو میٹر ریل کی پٹری تھی اب فیتہ لے کر ماپ لیں کتنی کم ہوگئی ہے؟ ریلوے سکڑ گئی ہے، یونین عہدیدار بڑھ گئے ہیں۔ جب ملک بنا تو مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا اب وہاں پاکستان کا نام لینے والوں کے لیے پھانسی گھاٹ سجے ہوئے ہیں۔ اخبارات بہت کم تھے مگر صحافت معتبر تھی اور باوقار تھی بعد میں ایک ٹی وی آیا اور لوگ ٹی وی اخبارات اور ریڈیو کے ذریعے اپنی اردو کی اصلاح کرتے تھے… آج برے حالات ہیں بلکہ بہت ہی برے۔ ہماری ہاکی ٹیم دنیا کی نمبر ون ٹیم تھی، ہم اسکوائش چمپئن بھی رہے، کھیلوں میں پیسہ نہیں تھا، گلیمر نہیں تھا مگر کھلاڑیوں میں لڑ کر جیتنے کا جذبہ تھا۔ آج ہماری ہاکی ٹیم میں کوئی سلیم شیروانی‘ اصلاح الدین‘ تنویر ڈار‘ منیر ڈار‘ سمیع اللہ‘ شہناز شیخ‘ منور الزمان‘ اختر رسول‘ شہبازسینئر نہیں ہے‘ کرکٹ میں ہمیں پہلی کامیابی آسٹریلیشیا کپ میں ملی جب بھارت کو دھول چٹائی گئی۔ پھر ہمیں عالمی کپ ملا، اس ٹیم کے کپتان عمران خان تھے۔ آج وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر ہیں۔ چودھری شجاعت حسین کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو کوئی وزیر اعظم بننے کو تیار نہیں ہوگا‘ انہوں نے یہ بات کس سیاق و سباق میں کہی‘ یہ وہ ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔
کل کے پاکستان میں اور آج کے پاکستان میں بڑا فرق ہے‘ ایک نسل تھی جس نے پاکستان بنایا پھر ایک نسل آئی جس نے پاکستان ٹوٹتے ہوئے دیکھا۔ یہ بات لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، پاکستان کا دولخت ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے اور ہاں پاکستان کا مقروض ہونا بھی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ قرض کیوں لیا؟ یہ قرض کہاں استعمال ہوا؟ کیسے استعمال ہوا‘ یہ ساری کہانی بھی کھل کر سامنے آنے والی ہے قرضوں کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں 21اداروں سے وابستہ 250 افراد کی نشاندہی کردی ہے۔ وزیراعظم نے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے قرضہ کمیشن نے 2008ء سے 2018ء تک 2400 ارب روپے قرضے کی رپورٹ تیار کرلی ہے جن میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ترقیاتی منصوبوں میں اختیارات کے غلط استعمال، کک بیکس اور قرضوں میں سنگین بے ضابطگیوں کا بھی تذکرہ ہے رپورٹ میں اور بہت کچھ ہے قرضہ انکوائری کمیشن نے 420غیرملکی قرضوں کے مکمل ریکارڈکی جانچ پڑتال بھی کی ہے۔ اورنج لائن ٹرین، بی آر ٹی پشاور، کول پاورپلانٹس اور نیلم جہلم سمیت دیگر منصوبے بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ جون 2019 میں قرضہ کمیشن قائم کرنے کا اعلان ہوا تھا 2008 سے2018 تک لیے گئے قرضے اور ان کے استعمال کی تفصیلات جمع کرنا تھا کمیشن میں ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے اراکین بھی شامل تھے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قائم کیے گئے 12 رکنی کمیشن کی سربراہی ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کو سونپی گئی تھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم عمران خان کے مشیر خزانہ اور 2010 سے 2013 تک پیپلزپارٹی دور کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے بھی تفتیش کی گئی ہے؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2007-08 کے اختتام سے مالی سال 2017-18 کے اختتام تک پاکستان کے کل قرض میں 49 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور وہ 46.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 95.2 ارب ڈالر ہو گیا جو سو فی صد سے زیادہ کا اضافہ ہے۔ اس 49 ارب ڈالر میں سے پیپلزپارٹی کے دور میں یعنی 2008 سے 2013 کے درمیان 14.7 ارب ڈالر جبکہ مسلم لیگ نون کے دور میں 34.3 ارب ڈالر قرض لیا گیا تحریکِ انصاف کی حکومت کے ابتدائی 7 مہینوں میں پاکستان کا کل قرض 95.2 ارب سے بڑھ کر 105.8 ارب ڈالر ہو گیا ہے جو 10.6 ارب ڈالر کے لگ بھگ اضافہ ہے ان قرضوں میں حکومت کے ملکی بینکوں سے لیے گئے قرضے، نجی کمپنیوں کے بیرونی قرضے، پبلک سیکٹر کمپنیوں کے ضمانت اور بغیر ضمانت والے قرضے بھی شامل ہیں سعودی عرب اگر آج پاکستان کو اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر بہتر کرنے کے لیے تین یا چار ارب ڈالر دے، اور وہ قرضے کی مد میں نہ ہو، مگر پھر بھی وہ پاکستان کے واجبات میں گنا جائے گا مگر آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ گنیں تو کہانی تھوڑی سی مختلف ہے حکومت کا بیرونی قرضہ اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ جمع کریں تو مالی سال 2007-2008 کے اختتام سے مالی سال 2017-18 کے اختتام تک یہ 41.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اگر 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کے دور کو دیکھا جائے تو اس دوران اس میں 6.3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ مسلم لیگ نواز کے دور میں یہ رقم 48.1 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.2 ارب ڈالر تک جا پہنچی جو 22.1 ارب ڈالر کا اضافہ ہے۔
اگست 2018 میں تحریکِ انصاف کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ابتدائی 7 ماہ میں پاکستان کے حکومتی قرضوں میں چار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اب عمران خان اب کنٹینر پر نہیں وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے ہیں اور ان کے بیانات اسٹاک مارکیٹ سے لے کر ملک کی شرحِ نمو تک ہلا سکتے ہیں پیپلز پارٹی کے دور میں پرائیویٹ سیکٹر نے بیرونِ ملک سے 1.26 ارب ڈالر قرضے لیے‘ نواز شریف کے دور میں پرائیویٹ سیکٹر نے بیرونِ ملک سے 6.05 ارب ڈالر کے قرضے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے قرضے لینے کو عموماً ایک مثبت اشارہ سمجھا جاتا ہے کہ معیشت میں تیزی آ رہی ہے اور نواز دور میں اس کی ایک وجہ شاید سی پیک سے منسلک سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ تاریخی تناظر میں پاکستان کو ملنے والے قرضوں کی اوسط شرحِ سود تقریباً اتنی ہی رہی جتنی یہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے لیے تھی 2013 کے بعد سے رجحان دیکھیں تو پاکستان کو ملنے والے قرضوں پر شرحِ سود جنوبی ایشیا کے مقابلے میں زیادہ رہی 2008-2018 کے دوران پاکستان نے کتنا سود ادا کیا ہے؟ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ حکومت جتنا ٹیکس اکھٹا کرتی ہے، اس کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگیوں میں لگ جاتا ہے اگر کل ادائیگیاں گنی جائیں تو پاکستان نے جون 2009 سے مارچ 2019 تک قرضے کی اصل رقم (یعنی پرنسپل) میں سے 37 ارب 211 ملین ڈالر ادا کیے ہیں اور اسی دوران 13 ارب 452 ملین ڈالر سود کی شکل میں دیے یہاں ہم ادائیگیاں ڈالروں میں اس لیے گنتے ہیں کیونکہ یہ ڈالروں کی شکل ہی میں کی جاتی ہیں اور روپے کی قدر میں اضافے یا کمی سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مگر اگر اسی دورانیے میںصرف حکومتی قرضے، آئی ایم ایف، اور زرِمبادلہ کے واجبات کے حوالے سے پرنسپل ادائیگی اور سود کو دیکھیں تو اصل رقم 31 ارب 263 ملین ہے اور سود 11 ارب 372 ملین ہے۔