کیا کسی کو سزا ملے گی؟

301

اس بات کی کوئی امید تو نہیں ہے کہ ملک میں چینی کے حالیہ اسکینڈل میں ملوث کرداروں کو کوئی سزا مل سکے گی یا کم ازکم ان سے وہ رقم ہی وصول کی جاسکے گی جو انہوں نے قوم سے لوٹی ۔ اس بات کی بھی کوئی امید نہیں ہے کہ آئندہ ایسا کوئی اسکینڈل مزید رونما نہیں ہوگا کہ اس طرح کے سارے کردار طاقت کی راہداریوں میں بلا روک ٹوک پہلے ہی کی طرح گھومتے پھرتے نظر آرہے ہیں ۔ اس بات کی بھی کوئی امید نہیں ہے کہ ملک میں احتساب کے ادارے اور عدالتیں اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرسکیں گے ۔ معاملے کو ٹالنے کے لیے پہلے سے ہی کمیشن بٹھا دیا گیا ہے ۔ یہ بھی ملک کا اچھوتا ریکارڈ ہے کہ آج تک کوئی بھی کمیشن کسی بھی معاملے پر اپنا کردار ادا نہیں کرسکاہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ روز ہی اس سلسلے میں ایک نیا انکشاف سامنے آتا ہے ۔ تازہ انکشاف کے مطابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو طاقتور چینی مافیا کو تین ارب روپے دینے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے اچانک صوبائی کابینہ میں اس معاملے کو پیش کیا ، کسی وزیر کو اسے پڑھنے کی مہلت بھی نہیں دی اور اس معاملے کو اسی طرح روایتی طور پر کابینہ سے منظور کروالیا جس طرح سے کابینہ دیگر معاملات کی منظوری دیتی رہی ہے ۔ بعد میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی توجہ اس کے خلاف ضابطہ ہونے کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے سارے ضابطے گزشتہ تاریخوںمیں منظور کرلیے ۔ چینی اسکینڈل کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کو کس طرح سے چلایا جارہا ہے ۔اس طرح سے تو وائسرائے بھی فیصلہ نہیں کیا کرتے تھے جس طرح سے ایک جمہوری ملک کے وزیر اعلیٰ نے فیصلے کیے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عمران خان نیازی کی پوری انتخابی مہم ہی گڈ گورننس اور کرپشن کے حوالے سے رہی ۔ وہ شریف برادران پر گڈ گورننس کے حوالے سے شدید تنقید کرتے رہے اور کرپشن کرنے والوں کو للکارتے رہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نیازی چینی اور گندم کرپشن کے کرداروں کے خلاف کیا تادیبی اقدام کریں گے ، اس کا اندازہ اسی بات سے ہوجاتا ہے کہ اس پورے معاملے میں ملوث افراد کو ابھی تک کابینہ سے رخصت نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ عوام کی اشک شوئی کے لیے ان کے محکمے ضرور آپس میں تبدیل کردیے گئے ہیں ۔ ایف آئی اے جس نے اپنی رپورٹ میں چینی اور گندم اسکینڈل کا انکشاف کیا تھا ، اسے ابھی تک اس سلسلے میں آئندہ اقدام کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔یہ کون سی تبدیلی ہے کہ ملک میں لوٹ مار کا بازار اسی طرح سے گرم ہے اور مجرم سلاخوںکے پیچھے ہونے کے بجائے وزارتوں پر براجمان ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نیازی کو اگر اپنے ادارے ایف آئی اے کی تحقیقات پر اعتماد نہیں ہے تو بہتر ہوگا کہ ایف آئی اے کی تشکیل نو کی جائے اور غلط رپورٹ بنانے والوں اور اسے مشتہر کرنے والوں کی گوشمالی کی جائے اور اگر یہ مذکورہ رپورٹ درست ہے تو اس رپورٹ کے مندرجات کے مطابق بلا امتیاز اور بلاتخصیص مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ کہیں سے تو احتساب شروع ہوگا ۔ اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ابھی سے شروع کیا جائے اور پھر ماضی کی طرف سفر شروع کیا جائے ۔ اگر کرپشن کے خلا ف ابھی سے کارروائی شروع نہ کی گئی اور میرے چور اچھے اور تمہارے چور خراب والی پالیسی کو جاری رکھا گیا تو پھر کبھی بھی کرپشن کے خلاف کوئی مہم کامیاب نہیں ہوسکے گی ۔ یہ بھی مجرم مافیا کا کمال ہے کہ وہ ہر حکومت میں اقتدار کی کرسی کے آس پاس ہی منڈلاتی نظر آتی ہے اور ہر حکمراں کی منظور نظر ہوتی ہے ۔ نئے انکشافات کے بعد اصولی طور پر سب سے پہلی کارروائی تو عثمان بزدار کے خلاف ہی ہونی چاہیے ۔ تین ارب روپے کی کرپشن اس وقت تک ممکن نہیں تھی ، جب تک عثمان بزدار اس کی خلاف قانون منظوری نہ دیتے ۔ چینی اسکینڈل میں ہونے والی کارروائی کو دیکھ کر یہ مقولہ انتہائی درست معلوم ہوتا ہے کہ قانون مکڑی کو وہ جالا ہے ، جسے طاقتور توڑ کر باہر نکل جاتا ہے اور کمزور اس میں پھنس جاتا ہے ۔