اداروں میں ہم آہنگی، وقت کی اہم ضرورت

243

شہزاد سلیم عباسی
کورونا وائرس کی سنگین صورتحال نے پوری دنیا کو کرب میں مبتلاکر رکھا ہے۔ ہر طرف شور و غوغا ہے کہ آج فلاں ملک میں اتنے ہلاک ہو گئے ہیں اور اتنے کورونا مریض بن چکے ہیں۔ عالمی معیشتوں پر سناٹا چھایا ہے۔ مگر ہمارے ہاں ادائیں اور چلن نرالے ہیں! صوبے عملی اقدامات کرتے نظر آئے مگر وفاق کو ٹویٹر سے فرصت نہ ملی۔ بات یہ ہے کہ جب مصیبت سر پر آتی ہے تو ہم جاگتے ہیں۔ ایک دو ممالک کو چھوڑ کر پوری مسلم امہ بحرانوں کا انتظارکرتی ہے کہ وہ سر پر آجائیں تو حکمت عملی مرتب کریں! افسوس کی بات ہے کہ کورونا وائرس ریلیف پر وفاق پہلے دن جہاں کھڑا تھا آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ یہ تو بھلا ہو چین کا جس نے کچھ امدادی ٹرک بھجوائے ورنہ ہمارے سرکاری شفا خانوں کی حالات زار ’’وینٹی لیٹرز‘‘ کی صورت میں چیئرمین این ڈی ایم اے بتا چکے ہیں۔
اتنی بڑی آفت کے بعد ہم ابھی بھی پلاننگ فیز یعنی لاک ڈاون، قیدیوں کی رہائی، تبلیغی جماعت پکڑ دھکڑ، ٹویٹر بینک اکائونٹس، کیش/ ٹرانسفر، ٹائیگر فورس کے قیام اور دیگر غیر ضروری چیزوں میں پھنسے ہیں،وفاق اور پنجاب نے اعلان کیا کہ ہم چار ماہ میں بے روزگاروں کے اکائونٹس میں قسطوار فنڈز ٹرانسفر کریں گے۔ شاید حکومتیں بمشکل ایک ہی قسط ٹرانسفر کرپائیں گی اور کورونا ختم ہوجائے گا۔ پھر لوگ سوال اٹھائیں گے کہ مختص کی گئی باقی رقوم، ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف و چین سے لی گئی امداد ی رقوم، فورسز بشمول پولیس، رینجرز کی تنخواہوں کی کٹوتی کے اربوں روپے اور وزیر اعظم کورونا ریلف فنڈ کی تفصیلات کیا ہیں پیسے کدھر گئے وغیرہ۔۔!! بہرحال لوگ ابھی ڈیم فنڈ نہیں بھولے ہیں! اور ہمیں یاد رکھنا ہے کہ مئی ’’ڈینگی آئوٹ بریک‘‘ کا ہے جو وباء تو نہیں مگر جان لیوا ضرور ہے۔
کسی بھی ملک میں تمام تر ادارے سول یا ملٹری، سرکاری و غیر سرکار ی و نیم سرکاری، گروپس، کلبز کمپنیاں، میڈیا، عدالتیں، فلاحی ادارے اور پھر افراد سب کے سب مربوط کوشش کے ساتھ چلتے ہیں۔ اور جہاں پر بھی ہم آہنگی کا فقدان ہو وہاں معاشروں کی اقدار کھوکھلی ہو تی چلی جاتی ہیں۔ مربوط نظام کی بحالی و فعالی ہی سے قومیں بنتی ہیں جو آگے چل کر جذبات، احساسات اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں دیگر اقوام کی آنکھ کا تارا بنتی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کے علم میں ہے کہ تمام صوبائی اکائیاں اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے کورونا کے خاتمے میں ان کے معاون ہیں، انہیں ان کا جائز حق دیں اور جہاں تعریف بنتی ہے وہاں تعریف کریں اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہو وہاں مصلح کا کردار ادا کریں۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ الخدمت فائونڈیشن، سیلانی، عالمگیر، ایدھی فائونڈیشن، چھیپا، المصطفی ٹرسٹ، ایل آر بی ٹی، سٹیزن فائونڈیشن اور اخوت جیسے کئی دوسرے ادارے حکومت کا بوجھ اتارنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی و خوشحالی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے میڈیا انچارج شعیب ہاشمی سے فون پر رابطہ ہوا اور کورونا کے حوالے سے کچھ تفصیلات سے آگاہی ہوئی۔
الخدمت کورونا ریلیف میں الخدمت کے 18 ہزار رضاکار 40 کروڑ روپے کی لاگت سے 1،1 لاکھ لوگوںکو بالترتیب راشن اور پکا پکایا کھانا پہنچا چکے ہیں جس سے 9 لاکھ سے زائد افراد مستفید ہو ئے ہیں۔ 4لاکھ فیس ماسکس، 2 لاکھ سینی ٹائزرز اور صابن کی تقسیم جبکہ1 ہزار سے زائد مساجد، مدارس، گرجا گروں اور مندروں میں جراثیم کش اسپرے کیے جاچکے ہیں۔ اپنے 10 اسپتالوں میں آئی سی یو وارڈز کی تیاری، پرسنل پروٹیکٹو ایکوپمنٹس کی فراہمی، سکھر اور ملتان کے سرکاری قرنطینہ سینٹر میں روزانہ ریفریشمنٹ اور پی پی ایز کی فراہمی اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی آن لائن میڈیکل ہیلپ کے لیے الخدمت پیما ہیلتھ لائن قائم کر دی گئی ہے۔ صدر الخدمت فائونڈیشن محمد عبد الشکور کی ہدایت پر ڈاکٹر حفیظ الرحمان کی سربراہی میں ’’الخدمت کورونا ٹاسک فورس‘‘، ایم ڈی الخدمت ہیلتھ فائونڈیشن سفیان خان کی زیر نگرانی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ اسلام آباد میں حامد اطہر ملک کورونا ریلیف سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔
الخدمت نے ’’ فوری رسپانس اور آگاہی مہم‘‘ کے ابتدائی مرحلے میں مرکزی سطح پر اینٹی کورونا ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ الخدمت اپنی طبی سرگرمیوں کے تحت مشتبہ متاثرین کے لیے آئسولیشن کی سہولت کے طور پر ملک بھر میں قائم اپنے اسپتالوں کے دروازے کھول رہی ہے۔ الخدمت کے اس وقت ملک بھر میں28 اسپتال ہیں۔ اب تک الخدمت، نعمت اللہ خان اسپتال تھرپارکر، الخدمت رازی اسپتال اسلام آباد، الخدمت مشال میڈیکل کمپلیکس مردان اور الخدمت اسپتال چترال متعلقہ اضلاع میں شعبہ صحت کے حوالے کرچکی ہے۔ الخدمت نعمت اللہ خان تھرپارکر اسپتال میں 30 بیڈز، 7 کارڈیک مانیٹرز اور 9 لوگوں کو بالکل آئسولیشن میں رکھنے کا انتظام موجود ہے۔ الخدمت کو 10 وینٹی لیٹرز اور پیشنٹ مانیٹرز، 50 کارڈیک مانیٹرز، 10اے بی جی اینالائزرز، تھرمل اسکینرز اور Personal Protective Equipment) ( یعنی گاؤنز، فیس شیلڈ، دستانوں، ماسک) کی فوری ضرورت ہے۔