چپ دماغ خراب کردیا

564

’’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘‘۔ ’’کورونا کو بھگانا ہے‘‘۔ ’’کورونا کے خلاف جنگ قوم نے مل کر لڑنی ہے‘‘۔ ابے چپ۔ دماغ خراب کردیا۔ کورونا نہ ہوا وہ دشمن ہوگیا جو بے تیغ سپاہیوں سے بھی مرجاتا ہے۔ چند ہزار ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو حفاظتی کٹس اور ضروری سامان تو دے نہیں سکتے۔ قوم کو لڑوائیں گے اس دشمن سے جو کہیں سے بھی گھس سکتا ہے۔ ایک طرف کہہ رہے ہیں سماجی فاصلہ رکھو دوسری طرف مل کر لڑنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ملنے ہی میں تو سارے مسئلے ہیں۔ عجب چپکو وائرس ہے، خود ہر چیز اور ہر ایک سے چپک رہا ہے لیکن لو گوں کو ملنے بھی نہیں دے رہا ہے۔ جس کے قریب جائو، دور ہی سے اشارہ کردیتا ہے، پرے، پرے۔ ہائے میر صاحب کا کیا شعر یاد آگیا ہے
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گل سے میر
بلبل پکاری دیکھ کے، صاحب پرے پرے
گھر میں بیٹھے بیٹھے بیزار ہوگئے ہیں۔ سوچ لیا ہے ایک بار لاک ڈائون ختم ہوجائے اتوار کو بھی آفس جایا کریں گے۔ ایک بات ہے اتنے دن گھر میں رہ کر بھی اگر کوئی بیوی کو مسکرا کر دیکھتا ہو تو وہ ولی اللہ ہے۔ ولی اللہ کے بارے میں ایک بات عرض ہے اگر کسی پر شبہ بھی ہوجائے کہ وہ اللہ کے قریب ہے تو اس سے قریب ہوجائیں لیکن پہلے یہ چیک کرلیں کہ اسے کورونا نہ ہو۔
بات دوسری طرف نکل گئی ہم یہ کہہ رہے تھے چوبیس گھنٹے موت موت کی تکرار سن کر کان پک گئے ہیں۔ ہم اس وقت کالم لکھ رہے ہیں، ہم آج زندہ ہیں امید ہے کل بھی زندہ رہیں گے۔ کھا رہے ہیں پی رہے ہیں، مرضی سے سو رہے ہیں مرضی سے اٹھ رہے ہیں۔ نہیں رہیں گے تو اگلے پل کی خبر نہیں۔ کورونا کے خوف سے زندگی کو چلتی پھرتی میت کیوں بنائیں۔ غریبوں کی بھوک کی بھی وہ تکرار ہے کہ اللہ کی پناہ۔ جیسے بھوک سے اہل پاکستان پہلی بار آشنا ہورہے ہیں۔ غربت اور بھوک پہلے بھی جسموں کو نوچتی تھی آج بھی نوچ رہی ہے۔ دکھوں کے معاملے میں پاکستانی پہلے بھی خود کفیل تھے آج بھی خود کفیل ہیں۔ ہمیں عادت ہوگئی ہے۔ رونے کو ہر روز ایک نیا دکھ، ایک نیا بہانہ چاہیے۔ کورونا نے یہ بہانہ خوب مہیا کردیا ہے۔ ایک انسان کی موت، موت ہوتی ہے۔ بہت سوں کی ہو تو موت نہیں رہتی نمبرز بن جاتی ہے۔ آنسو خشک ہوجاتے ہیں۔ جو زندہ ہیں ان میں تو آسمان کے روشن ستارے اور زمین پر کھلتے پھول دیکھنے کی حس زندہ رہنے دیں۔
کورونا کاوہ خوف پیدا کردیا گیا ہے کہ اچھے خاصے ہنستے بولتے لوگ خشکے ہوگئے ہیں۔ فیس بک اور دیگر سماجی ویب سائٹس کا بھی یہی حال ہے۔ ہم سمجھتے تھے فیس بک ہنسنے بولنے اور رشتہ ڈھونڈنے کے لیے ہوتی ہے۔ وہاں بھی جائیں تو نہ دلچسپ باتیں ہیں، نہ چٹکلے، نہ ہنسی مذاق۔ چین میں کورونا آغاز ہوا تو ہمیں الٹیاں لگ گئیں۔ فیس بک، یو ٹیوب، غرض جہاں جائیں چائنیز یہ کھاتے ہیں، چائنیز وہ کھاتے ہیں باتصویر خصوصی ایڈیشن۔ جب سے کورونا یورپ اور امریکا میں پھیلا جسے دیکھیں خبروں کے چیختے چنگھاڑتے بلیٹن شیئر کررہا ہے۔ جسے دیکھو شاہ زیب خانزادہ بنا ہوا ہے۔ دنیا میں متاثرہ افراد کی تعداد اتنے لاکھ ہوگئی۔ آ ج نیویارک میں اتنے مرگئے، اٹلی میں اتنے، اسپین میں اتنے، سرد خانے کم پڑ گئے۔ ان نیوز بلیٹن سے بچ کر آگے بڑھیں تو ڈاکٹرز ہی ڈاکٹرز، مشورے ہی مشورے۔ اکثر اسپتالوں کی اوپی ڈیز بند ہیں۔ لگتا ہے کورونا کے علاوہ سارے جراثیم، بیکٹریاز اور وائرسز چھٹی پر گئے ہوئے ہیں۔ کسی اور مرض کے مریض، مریض نہیںہیں۔ سارے ڈاکٹرز ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر آگئے ہیں۔ بواسیر کے ڈاکٹر بھی کورونا اسپیشلسٹ بنے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو نہیں میڈیا کو لاک ڈائون اور قرنطینہ میں ڈال دینا چا ہیے۔ کہیں کوئی یہ کہنے والا ہی نہیں
یہ وبا کے دن گزر جائیں تو پھر
اک ملاقات رکھیں گے چائے پر
ہمیں حیرت ہے اہل مغرب نے ابھی تک کورونا کی ویکسین ایجاد نہیں کی۔ بات آگے بڑھے اس سے پہلے ایک شعر سن لیجیے
اے مرغ سحر تیرے گنے جا چکے ہیں دن
تو نیند میں لوگوں کی خلل ڈال رہا ہے
وہ مرغ جو لگا تار اس وقت اذان دے جب نیند کی لذتوں کا نزول ہوتا ہے زیادہ دن نہیں دیکھ پاتا۔ کورونا نے اہل یورپ کی سماجی زندگی، لطف کے مشاغل اور عیاشیوں کی ایسی تیسی کردی پھر بھی ابھی تک زندہ ہے۔ یقینا سائنس دان تحقیق اور جستجو میں لگے ہوں گے۔ ہر ایک ہی مصروف ہے۔ ہم نے بھی کچھ تحقیقات کی ہیں۔ امریکا میں 95فی صد لوگ دودھ نہیں پیتے۔ اٹلی میں کورونا کی وبا کے بعد جڑواں بچے پیدا ہونا بند ہوجائیں گے۔ سانپ کو اگر کورونا ہوجائے تو وہ دس منٹ ہوا میں اڑکر وینٹی لٹر کی کمی پوری کر لیتا ہے۔ ہاتھی کی دم کے ایک بال میں اتنی انرجی ہوتی ہے کہ موبائل چوبیس گھنٹے کے لیے چارج ہو جاتا ہے۔ زیبرے کا دل نہیں ہوتا۔ نیپال میں لوگوں کو شیر کھا جائے تو شام کو واپس نگل دیتا ہے۔ آپ یہ سب باتیں پڑھ کر پریشان ہوگئے ہوں گے۔ پریشان نہ ہوں ہر شخص کے اندر ایک لڈن جعفری چھپا ہوتا ہے۔
گھر میں بیٹھے بیٹھے غصہ بھی برف ہوگیا ہے۔ کسی پر غصہ آتا بھی ہو تو یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں ’’جناب آپ کی بدتمیزی اور جسارت دیکھ کر ہمیں آپ کی ولدیت ہی نہیں پورا حسب نسب مشکوک نظر آنے لگا ہے‘‘۔ حالانکہ پہلے کھٹاک سے منہ بھر کر کہہ دیا کرتے تھے ’’لکھ دی لعنت تیرے جمن والیاں تے‘‘۔ پہلے دوستوں اور رشتے داروں کی بے حسی دیکھ کر دل جلتا رہتا تھا۔ اب تنہائی میں احساس ہوا کہ ہم خود ہی اپنی دنیا اپنے بہترین دوست، بہترین دلاسہ اور تھپکی ہیں۔ کورونا وائرس اگر پرندے کی شکل میں ہوتا تو گدھ ہوتا، چوپائے کی شکل میں ہوتا تو خونخوار بھیڑیا ہوتا، کیڑے مکوڑوں کی شکل میں ہوتا تو ٹڈی دل ہوتا اور انسانوں کی شکل میں ہوتا تو قریبی رشتہ دار ہوتا۔
تو بھائی جان کہنا یہ تھا کہ کوئی جنگ ونگ نہیں ہورہی۔ ڈاکٹرز کو بھی بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر سلام پیش کیے جارہے ہیں۔ جنگ کے سپاہی قراردیا جارہا ہے۔ وہ بے چارے بھی جنگ نہیں کررہے خوف کے عالم میں نوکریاں کررہے ہیں۔ مکمل حفاظتی کٹس اور آلات مانگیں گے تو کُٹ پڑے گی۔ لاک اپ ہو جائیں گے۔ چھڑوانے اور سامان مہیا کرنے کے لیے فوج کو سامنے آنا پڑے گا۔ بہرحال آپ احتیاط کیجیے اور بہت کیجیے۔۔ خطرہ بے شک حقیقی ہے لیکن خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ احتیاط کیجیے۔ پھر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیجیے۔ موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ کورونا ڈر اور خوف کی زمیں میں کاشت ہوتا ہے لیکن ڈر آپ کی اپنی چوائس ہے۔ کسی جوہڑ میں ایک سانپ اور مینڈک رہتے تھے۔ سانپ کو اپنے زہر پر بہت ناز تھا کہ میرا کاٹا ہوا پانی نہیں مانگ سکتا۔ مینڈک نے سنا تو بہت ہنسا۔ کہا ’’زہر وہر کچھ نہیں۔ لوگ زہر سے نہیں ڈر سے مرتے ہیں۔ دونوں میں ٹھن گئی۔ مینڈک نے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا۔ سانپ کو سنایا۔ اسے بھی پسند آیا۔ ایک دن انہوں نے دیکھا دور سے ایک راہ گیر چلتا ہوا جو ہڑ کی طرف آرہا تھا۔ جیسے ہی وہ جھاڑیوں کے قریب آیا سانپ نے اسے کاٹ لیا۔ اس نے جھک کر دیکھا تو پائوں کے بیچ سے مینڈک پھدکتا ہوا نکلا اور بھاگ گیا۔ راہگیر نے مینڈک کو دیکھا تو پائوں پر آہستہ سے کھجا کر اطمینان سے چلتا چلا گیا۔ اگلے دن پھر ایک راہگیر گزرا۔ مینڈک نے اچھل کر اس کی پنڈلی میںکاٹ لیا۔ راہ گیر نے ہڑ بڑا کر دیکھا تو سانپ پھن پھیلائے کھڑا تھا۔ مسافر دہشت سے زمین پر گرا اور مرگیا۔