انعام کو عذاب نہ بنائیں

536

 

 

آپ کورونا کو عذاب الٰہی کہیں آزمائش یا سازش لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ ایک بیماری ہے۔ اسے ہمارے آقائوں نے نہایت خوفناک وبا قرار دیا ہے۔ اس لیے ہمارے حکمران جو ان آقائوں کے حکم پر عمل کرتے ہیں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ وبا خوفناک ہے اور اب عوام بھی ان آقائوں اور میڈیا کی وجہ سے مغرب اور سازشی یہود کو برا سمجھنے کے باوجود سب باتوں پر یقین کرنے پر مجبور ہیں۔ ذرا مختلف خیال سامنے آئے تو اسے وہم قرار دے کر لاحول پڑھ کر جھٹکنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ بس چلے تو ایسے خیالات پیش کرنے والے ہی کو… بات غیر سنجیدہ ہو جائے گی ہم تو یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مسلمان کو اس حالت میں کیا کرنا چاہیے چنانچہ بار بار یہ آیات سامنے آرہی ہیں۔
’’ہم ضرور تمہیں خوف …، فاقہ کشی جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ انہیں خوش خبری دے دو، ان پر ان کے ربّ کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی۔ اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں‘‘۔ البقرہ آیات (155-57)
اتفاق یہ ہے کہ ان آیات سے قبل والی آیات بھی آج کل کے حالات کی مناسبت سے متوجہ کررہی ہیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (153)
دیکھا جائے تو یہ آیات ہمیں پرسکون طریقے سے رجوع الی اللہ اور ایمان کی تجدید و مضبوطی کے لیے موقع اور یاد دہانی فراہم کررہی ہیں۔ جب قرآن نے کہہ دیا کہ ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے تو یہ کورونا کا خوف مرجانے کا خطرہ یا خدشہ، حکومت کی جانب سے لاک ڈائون کی وجہ سے فاقہ کشی کا خدشہ، جان و مال کے نقصانات، کاروبار کے (آمدنیوں کے گھاٹے) نقصانات۔ یہ سب وہی آزمائش تو ہے جس کے بارے میں بتا دیا گیا تھا اور قرآن نے کہا ہے تو ایسا ہو کر رہنا تھا۔ اس کا بہانہ کورونا بن گیا، 9/11 بھی بنا تھا، دہشت گردی بھی بنی تھی کراچی کے رہنے والے جانتے ہیں 35 برس ایم کیو ایم بھی بنی تھی ٹارگٹ کلنگ بھی بنی تھی، لیکن مسلمان کے لیے جو راستہ بنایا گیا تھا وہ یہ ہے کہ ایسے میں صبر سے کام لے۔ جو لوگ صبر کریں گے انہیں راست رو قرار دیا گیا ہے اور ان کے لیے رحمتوں کا وعدہ بھی کیا گیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن ان آیات سے قبل 153 ویں آیت میں اسی قسم کی بات کی گئی ہے کہ صبر اور نماز سے مدد لو۔ تو اس میں ہم ہماری حکومت اور دینی رہنمائی کرنے والے غلطی کر بیٹھے ہیں۔ بہت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ صبر اور نماز سے مدد لو اور اجتماعی طور پر کہا گیا ہے لیکن ہم نے ہر دو احکام کو بھلا کر زمینی خدائوں کی پیروی شروع کر دی ہے۔
خدا کی پیروی کرتے ہیں تو بہت واضح طور پر دنیا و آخرت میں کامیابی کی بشارت ہے۔ صبر اور نماز سے مدد لینے کا حکم یقینا ایسے ہی حالات کے لیے دیا گیا ہے اور گھروں میں نماز نہیں بلکہ اجتماعی طور پر مساجد ہی میں ہوسکتی ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ ہمیں قرآن کی بشارت پر یقین نہیں مغربی میڈیا اور ڈبلیو ایچ او پر زیادہ یقین ہے۔ اگر ہم یہ کہہ دیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے… تو پھر اللہ کی طرف سے انعام کے حقدار ہوجائیںگے۔ یعنی ربّ کی طرف سے عنایات اور اس کی رحمت کا سایہ… یہ کورونا کیا چیز ہے۔ کسی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں مسلمان کے لیے اس یا کسی بیماری سے لڑتے ہوئے مر جانا بھی اللہ نے انعام کا ذریعہ بنادیا ہے بس شرط یہ ہے کہ ایمان سلامت رہے۔
خوامخواہ بحث کرنے والوں کے لیے پہلے ہی عرض کردیتے ہیں کہ ہماری ان گزارشات کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ کورونا وائرس کا وجود نہیں اس سے لوگ بیمار نہیں ہورہے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں۔ صفائی نہ رکھیں وغیرہ… یہ سب کام کریں لیکن امریکا، چین، شیطان یا دجال کو خدا بنانے کے بجائے اللہ کی بشارتوں پر ایمان پختہ رکھیں۔ پوچھا اسی ایمان کے بارے میں جائے گا۔ کون کہتا ہے کہ ہاتھ صاف نہ رکھے جائیں۔ کون کہتا ہے کہ کھانسی نزلہ ہو تو ماسک نہ پہنو، لیکن ہمارے یہ بھائی لوگ دوسرا مؤقف سننے کو بھی تیار نہیں ہیں جبکہ جس دنیا کی پیروی ہم کررہے ہیں وہ دنیا تو دوسرا مؤقف بھی پیش کررہی ہے اور کھل کر اس وبائی پروپیگنڈے کو چیلنج کررہی ہے۔ اس تحریر سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنے ایمان کو سلامت رکھیں کہیں اپنے لیے رحمتوں کے دروازوں کو ہم اپنے لیے عذاب کا سبب نہ بنالیں۔ تیسرا جمعہ سندھ میں مساجد کی بندش کے ساتھ گزر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مماثلت نہ ڈھونڈھیں، لیکن بد حواسی میں کیے گئے فیصلوں کے نتیجے میں نام نہاد سماجی فاصلہ ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ میڈیکل اسٹورز، چھوٹی چھوٹی دودھ دہی کی دکانیں۔ اسپتال وغیرہ پر نہ چاہتے ہوئے بھی رش ہے۔ سرکاری کاموں میں بھی اس کی خاص پابندی نہیں ہورہی۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور کئی وزراء ماسک نہیں لگارہے اور اب امداد بٹنے کا کام شروع ہوتے ہی سماجی فاصلے کا حکم غیر موثر ہوگیا۔ پولیس جگہ جگہ ناکے لگا کہ پہلے گاڑیوں کو روکتی ہے پھر جب پچاس، ساٹھ، سو گاڑیاں جمع ہوجاتی ہیں تو انہیں چھوڑ دیتی ہے پھر میڈیا کو ٹریفک جام نظر آتا ہے لیکن کورونا صرف باجماعت نماز سے پھیلتا ہے۔ وہ بھی صرف جمعہ کے روز۔ غور و فکر کی عادت ڈالیں۔ حکمران بھی، علماء بھی اور عوام بھی کہیں انعام کو عذاب نہ بنالیں۔