اسپیشل بچوں کو دیکھ دیکھ کر حکومت آشوب چشم میں مبتلا ہوگئی تھی۔ یوں بھی ایک ہی منظر سے آدمی اُکتا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے مشورہ کیا کہ بوریت سے کیسے نجات پائی جائے۔ چور، ڈاکو اور لٹیرے کی تکرار نے ہمارے اپنے کانوں کے پردے پھاڑ دیے مگر عوام کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ کافی سوچ، بچار اور غورو خوض کے بعد وزیراعظم کو باور کرایا گیا کہ اگر ملک میں آٹا، چینی اور دیگر اشیائے ضروریات کی قلت پیدا کردی جائے تو پوری قوم کو دال روٹی کے چکر میں ڈال کر اذیت میں مبتلا کیا جاسکتا ہے، مگر اس بحران میں سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ آٹے کی قلت پیدا کرکے ناقص گندم کا آٹا مارکیٹ میں ڈال دیا جائے اور اسے اسپیشل آٹا کہہ کر قیمت دو، تین سو روپے کم کر دی جائے اور ساتھ ہی مہنگائی کا سونامی بہا دیا جائے یوں قوم رفتہ رفتہ ذہنی طور پر معذور ہوکر اسپیشل بچہ بن جائے گی۔
اس وقت مارکیٹ میں اچھے آٹے کا بیس کلوکا تھیلہ ایک ہزار پچاس روپے میں فر وخت ہورہا ہے اور حکومت کا فراہم کردہ اسپیشل آٹے کا بیس کلو کا تھیلہ آٹھ سو روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ حکومت اور فلور مل مالکان کا اسپیشل آٹا اتنا ناقص اور اتنا غیر معیاری ہے کہ نوالہ حلق میں پھنس جاتا ہے، اُترتا ہی نہیں اور اگر جیسے تیسے پیٹ کا جہنم ٹھنڈا بھی کر دیا جائے تو جسم ٹھنڈا ہونے لگتا ہے ۔ اسہال، پیچش، معدے کا درد اور پیٹ سے متعلق دیگر بیماریاں عام ہونے لگتی ہیں۔ لوگ کورونا وائرس سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا اسپیشل آٹے سے ڈرتے ہیں۔ ایک فلور مل مالک کے دل میں ایمان کی رتّی تھی اس نے 25 کلو فائن آٹے کے تھیلے کی قیمت گیارہ سو مقرر کر دی جبکہ دیگر آٹا مل مالکان 25 کلو کا تھیلہ 1290 روپے میں فروخت کررہے ہیں مگر اس کو یہ ایمان داری راس نہ آئی۔ اس کا آٹا مارکیٹ سے غائب کردیا گیا اور اسے اتنا مجبور کیا گیا کہ اس نے بھی آٹے کے تھیلے کی قیمت 1100 روپے کے بجائے 1290 کردی مگر کسی با اقتدار شخص کو یہ خیال نہ آیا کہ 20 کلو فائن آٹے کی قیمتوں میں 190 روپے کا فرق کیوں ہے اور وہ کون سی قوت ہے جس نے آٹے کی قیمت بڑھانے پر مجبور کیا۔ دیگر اشیائے خور ونوش میں بھی دس تا پندرہ روپے کا فرق پایا جاتا ہے، اگر کوئی گاہک اعتراض کرے کہ فلاں سبزی فروش تو اس بھائو دے رہا ہے تم زیادہ پیسے کیوں لے رہے ہو؟ اس کی سبزی دو نمبر ہے میرا ریٹ تو یہی ہے لو یا نہ لو۔ تمہاری مرضی تم اچھے بھلے سیانے آدمی ہو اور یہ بات اچھی طرح جانتے ہو۔ سیانے کا اعزاز ملنا ایک خوش کن بات ہے۔ سو، گاہک خوشی خوشی مہنگی سبزی اور دیگر اشیائے ضرورت خرید لیتا ہے۔ وہ سیانہ ہو یا نہ ہو مگر اتنا ضرور جانتا ہے کہ حکومت کی موجودگی میں کوئی ملک اندھیر نگری نہیں بن سکتا۔ ہمارا سب سے بڑا قومی المیہ یہی ہے کہ حکمران طبقہ بات کا بتنگڑ بنانے کا ماہر ہے۔ کہتا کچھ ہے کرتا کچھ اور ہے ٹریننگ کے دوران ہمارے ایک استاد نے کہا تھا۔ کام کرو یا نہ کرو مگر انکار کبھی مت کرنا کیوں کہ انکار ناقابل معافی جرم ہے۔