سید حسین احمد مدنی
قرآن مجید سیدنا محمد عربی ؐ کی سیرت اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل ہمارے لیے راہنمائی کی حیثیت رکھتے ہیں ہم جب کسی مشکل میں مبتلا ہوں، کسی آفت ناگہانی کا شکار ہوں، کسی دشمن نے چاروں طرف سے ہمیں گھیر لیا ہو اور تمام راستے ہمارے لیے بند ہوگئے ہوں، عقل مائوف ہوچکی ہو، مایوسیوں نے ڈیرے ڈال لیے ہوں، تاریکی اس قدر پھیل چکی ہو کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دے اور موت کا خوف موت سے پہلے موت کا منظر پیش کررہا ہو۔ ایسے سخت ترین حالات میں بھی ایک مسلمان کے لیے امید کی ایک کرن باقی ہوتی ہے جو پورے ماحول کو بقہ نور بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور وہ امید کی کرن رجوع الی اللہ سیدنا محمدؐ کی سیرت اور صحابہ کرامؓ کے طرزعمل سے رہنمائی ہوتی ہے۔ لہٰذا آج جس مشکل سے ہم اور پوری انسانیت دوچار ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن و سنت سے راہنمائی اور رجوع الی اللہ کے ذریعے اس آفت کا مقابلہ کریں اور دنیا کو بھی یہ راستہ دکھائیں۔
قرآن مجید میں سورۃ الانبیاء کی پہلی آیت میں اس ہی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔ ’’قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں‘‘۔ یعنی ہم نے تمہیں عقل سمجھ اور وسائل دے کر اس دنیا میں بھیجا تھا کہ تم ان کو استعمال کرکے اس دنیا کو جنت بنادیتے اور پوری انسانیت امن و سکون اور راحت کا گہوارہ ہوتی لیکن تم نے ہماری ہی دی ہوئی عقل سمجھ اور وسائل کا غلط استعمال کرکے اس دنیا کو اور پوری انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اب اس کے حساب کا وقت قریب ہے۔ لیکن تم اب بھی اپنے غلط رویوں سے رجوع کرنے اور پلٹنے کو تیار نہیں ہو اسی ہی غفلت میں پڑے ہوئے ہو جس نے تمہیں یہاں تک پہنچا دیا اور حقیقت ہے کہ آج پوری دنیا پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں اور ہم اپنے پورے میڈیا، فیس بک، واٹس ایپ اور چینل پر یہی چیخ رہے ہیں کہ اتنے لوگ مرگئے اتنی تیزی سے وباء پھیل رہی ہے، احتیاط کرو، ماسک پہن لو، شہروں کو بند کردو، ہوائی جہاز روک دو، ٹرین اور بسیں بند کردو، مسجدوں میں تالے لگادو، جمعہ چھوڑ دو اور گھروں میں بند ہوجائو۔ لیکن کوئی ایک آواز بھی یہ نہیں آرہی کہ اپنے رب کی طرف پلٹو، رجوع الی اللہ کرو۔ قرآن و سنت سے راہنمائی لو اور اپنے گناہوں پر توبہ استغفار کرو اور سوچو غور کرو جس نے اتنی خوبصورت دنیا بنائی اور اس میں ہمیں اشرف المخلوق بناکر بھیجا وہ آج ہم سے اس قدر ناراض کیوں ہوگیا کہ ہم کو اس نے گھروں تک محدود کردیا اور موت کا خوف ہم پر طاری ہے۔ ایسا کیوں ہے اور ہم مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا کیوں ہوگیا کہ ہمارا رب ہم سے اتنا ناراض ہوگیا ہے ہمیں اپنے گھر میں سجدہ کرنے سے بھی محروم کردیا اور ہم نے خود کعبہ بند کردیا اس کے در سے لپٹ کر رونے توبہ استغفار کرنے کے تمام راستوں پر روکاٹیں کھڑی کردیں۔ روضہ رسولؐ اور مسجد نبوی پر پابندی لگادی جہاں جاکر فریاد کرسکتے تھے کہ اے ہمارے محبوب نبیؐ آپ کی امت وبائوں میں گھر گئی ہے موت کے سائے اس پر منڈلارہے ہیں۔ اے رسول رحمت آپ کو آپ کے ربّ نے رحمت للعالمین بناکر بناکر بھیجا ہے آج پورا عالم مشکل میں ہے آپ اپنے ربّ سے درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں اس عذاب سے بچالے اور تو اور ہم جمعہ اور جمعہ کے اس خطبہ سے بھی بیزار ہیں اور اسے بھی روک دینے کا اعلان کررہے ہیں جس کے ذریعے خدا خوفی، رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار کی کوئی رمق ہمارے اندر پیدا ہوسکتی تھی۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ اور کیوں ہورہا ہے؟ قرآن اس پر تبصرہ کرتا ہے سورہ روم آیت نمبر41 ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائیں ان کو ان کے بعض اعمال کا شاید کے وہ بعض آئیں‘‘۔
یہ ہے وہ تبصرہ اور ہمارے لیے اہم ترین راہنمائی۔ ایک تو یہ کہ یہ قرآن کتنی زندہ و جاوید کتاب ہے کہ جو آج سے 1450 سال پہلے صرائے عرب کے ایک دور دراز چھوٹے سے علاقہ مکہ میں نازل ہوئی تھی آج کی گلوبل دنیا اور اس کے حالات میں بالکل زندہ و جاوید حقیقت کا اظہار ہے۔ آج پوری دنیا میں فساد برپا ہے اور ہمارے گھر تک محفوظ نہیں رہ گئے اور قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ یہ اللہ کا لایا ہوا عذاب نہیں ہے بلکہ انسانوں کے اپنے کرتوں کا نتیجہ ہے اور یہ سب کچھ ہم نے کیوں ہونے دیا اس لیے کہ ہم چاہتے تھے کہ ہم تمہارے اعمال کا تمہیں مزہ چھکا دیں اور بتادیں کہ ہم سے بغاوت ہمارے دین سے دوری اور دنیا کو ظلم سے بھردینے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والا خود بھی اس گڑھے میں گر جاتا ہے۔ آج یہی منظر ہے ان سپر طاقتوں کا کہ خود بھی اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہے گئے ہیں۔ پھر اللہ یہ بھی فرمارہا ہے کہ شاید اس کے بعد یہ ہماری طرف رجوع کریں۔ بے شک رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار ہی اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ہے۔ قرآن ہی نے ہم کو اس کی راہنمائی دی ہے سورۃ یونس آیت 98 ’’پھر کیا کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونسؑ کی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں) وہ قوم جب ایمان لے آئی تو البتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیا تھا‘‘۔ یعنی اللہ فرمارہا ہے کہ ہماری یہ سنت اور طریقہ نہیں ہے کہ جب ہم کسی ظالم قوم پر اس کے ظلم کی پاداش میں اپنے عذاب کا فیصلہ کرلیں اور ہمارے عذاب کے آثار ظاہر ہوجائیں تو پھر ہم اس کو ٹال دیں لیکن صرف قوم یونسؑ کے معاملے میں ہم نے اپنی اس سنت اور طریقہ میں استثنا کیا ہے اور اس کا سبب بھی بتایا کہ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ قوم یونسؑ نے ہم سے رجوع کیا اور توبہ و استغفار کا راستہ اختیار کیا اس لیے ہم نے اپنا آتا ہوا عذاب اس قوم پر سے ٹال دیا۔ اب ہمارے سوچنے کا مقام ہے کہ اگر قوم یونسؑ کے رجوع اور توبہ استغفار کے نتیجے میں عذاب ٹل سکتا ہے تو امت محمدیہ ؐ کے رجوع و استغفار سے کورونا کا عذاب کیوں نہیں ٹل سکتا اور پھر ایک اور بات بڑی اہم بتائی گئی سورۃ الصفات آیت 144-143 ’’اب اگر وہ (سیدنا یونسؑ) تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو قیامت تک اس ہی مچھلی کے پیٹ میں رہتا‘‘۔
سیدنا یونسؑ کو مچھلی نے نگل لیا اور مچھلی بھی سمندر کی تہہ میں جابیٹھی اب اس تاریکی اور مچھلی کی پیٹ سے سیدنا یونسؑ کو نکال لانے کا سبب صرف ان کی تسبیح یعنی رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار تھا اور یہ بھی فرمایا جارہا ہے کہ اگر وہ یہ کام نہ کرتے تو قیامت تک اسی حالت میں رہتے۔ پھر قرآن سیدنا یونسؑ کی وہ تسبیح بھی بتاتا ہے جو انہوں نے کی جسے ہم آیت کریمہ کہتے جس کے سبب اللہ کا کرم نازل ہوتا ہے۔ سورۃ الانبیاء آیت 88-87 ’’اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازہ۔ یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلاگیا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے آخر کو اس نے تاریکیوں میں سے پکارا نہیں ہے کوئی ربّ مگر تو پاک ہے تیری ذات بے شک میں نے قصور کیا۔ تب ہم نے اس کی دعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات دی اور اسی طرح ہم مومنوں کو بچالیا کرتے ہیں‘‘۔ اس آیت کی روشنی میں سب سے بڑا اطمینان اور خوش خبری پوری امت مسلمہ کے لیے یہ ہے کہ توبہ و ا ستغفار اور تسبیح کے نتیجے میں
نجات کا پروا نہ صرف سیدنا یونسؑ کے لیے نہیں تھا بلکہ ہر مسلمان صاحب ایمان کے لیے توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ میں نجات کا پروا نہ ہے۔ لیکن یہاں صرف اس نجات کے لیے اللہ توبہ، اللہ توبہ کا ورد نہیں ہے بلکہ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر کیا قصور کیے جن کی سبب یہ عذاب کورونا آگیا ہے۔ آپس کا بعض، ایک دوسرے سے نفرت، ایک دوسرے پر چھوٹے الزامات، عدم اعتماد، اپنی انا کی خاطر لوگوں کی عزتیں، فیس بک واٹس اپ اور دیگر ذرائع سے تار تار کرنا، عدم برداشت اپنے ہی بھائی اور تحریکی ساتھی سے عناد رکھنا ہر ظلم کے اوپر خاموش رہ کر ظالم کا ساتھ دینا، ہر برائی کو جواز بناکر اپنے لیے درست سمجھنا۔ ایسے بے شمار انفرادی قصور ہیں ہمارے جن سے ہمیں توبہ کرنی ہوگی اور ان کو چھوڑنے کا عزم کرنا ہوگا۔
ہمارے اجتماعی گناہوں اور قصوروں میں سب سے بڑا گناہ اور قصور یہ ہے کہ ہم نے 74 سال پہلے شب قدر میں جو ملک حاصل کیا تھا وہاں شریعت تو کیا نافذ کرتے ہم نے ریاستی طور پر ہندوئوں اور انگریزوں سے دوستی گانٹھ لی اور ان کی محبت میں اپنے دین کو رسوا کیا۔ قرآن میں اللہ کا حکم تھا کہ اس ریاست میں سود کا خاتمہ کردینا ورنہ ہم سے جنگ کے لیے تیار رہنا ہے ہم ریاستی طور پر اللہ سے جنگ کے لیے تیار ہوگئے اور سود کا نظام قائم رکھ کر اللہ اور اس کے رسول سے حالت جنگ میں ہیں، اس صورت میں توبہ کیسے قبول ہوگی رحمت کیسے آئے گی۔اہل کشمیر پر زندگی تنگ کردی گئی ان کو لاک ڈائون کردیا گیا ہم بحیثیت قوم اور ریاستی طور پر خاموش رہے ۔
بھارت نے کعبہ کی بیٹی بابری مسجد کو نہ صرف شہید کردیا بلکہ عدالتی طور پر مسجد کی جگہ مندر بنانے کا حکم دے دیا۔ ہم اجتماعی طور پر خاموش رہ کر اپنے ظلم اور گناہوں میں اضافہ کرتے رہے۔ ہم نے ریاستی طور پر اپنی بیٹی عافیہ صدیقی کو کافروں کے ہاتھوں فروخت کیا اور بے حیائی سے اس کو کارنامہ سمجھ کر جنرل پرویز نے اپنی کتاب میں بھی لکھا لیکن ہم من حیث القوم خاموش رہے بلکہ ہمارے
اندر ایسے بے شمار لوگ رہے جو اس ظالم کی ہمدردی میں آگے آگے ہیں لیکن اس مظلوم بیٹی کو قید تنہائی میں دیکھ کر کوئی ہمدردی نہیں آئی۔ اور تو اور ریاستی قوتیں پورے زور سے مسلمانوں کو بتارہی ہیں کہ مسجدیں بند کردو، جمعہ چھوڑ دو ورنہ کم از کم اردو کا خطبہ ہی ختم کردو کہ کسی کے دل میں خدا کا خوف نہ پیدا ہوجائے۔ لیکن کسی کی زبان سے یہ نہیں نکلا کے چینل پر بے حیائی کے طور طریقے فوری ترک کرو اور اس پر قرآن کی تلاوت آیات کریمہ کا ورد شروع کرو اور لوگوں کو رجوع الی اللہ اور توبہ استغفار اور احتیاطی تدابیر کی ہدایت دو۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ تمہیں ربّ کا واسطہ اپنے اجتماعی قصوروں اور گناہوں سے اجتماعی توبہ کرو اور اس کا یہی طریقہ ہے کہ وزیراعظم صاحب دو مرتبہ قوم سے لایعنی خطاب کرچکے ہیں اب بامقصد خطاب کریں اور اس میں واضح طور پر شریعت کے نفاذ کا ملک میں اعلان کریں جس میں جمعہ کی چھٹی کا بھی اعلان ہونا چاہیے اور فوری طور پر سودی نظام کے خاتمہ کا اعلان کریں اور پھر پوری ریاستی قوتوں اور ریاست کی عوام کو حکم دیں کہ سب شہر کی مرکزی مساجد میں جمع ہوں اور وہ خود شاہ فیصل مسجد میں عجز اور انکساری سے ربّ سے توبہ و استغفار کرنے کا اعلان کریں۔ ان شا اللہ ربّ کا وعدہ پور ہوگا اور یہ کورونا کا عذاب سے ہم ہی نہیں پوری دنیا سے ٹل جائے گا۔